Maktaba Wahhabi

100 - 458
میں آپ نے بڑے عمدہ پیرایہ میں میری تحریک کی تائید فرمائی، جس سے میری شخصیت بہت نمایاں ہو گئی۔ اخبار ’’وکیل‘‘ امرتسر نے مولانا داؤد رحمہ اللہ پر ایک دفعہ سخت تنقید کی تھی کہ یہ سیکنڈ کلاس میں سفر کرتے ہیں جس سے قوم کا پیسہ یوں ہی برباد ہو جاتا ہے۔ میں نے اس بارے میں ان سے ذکر کیا تو اُنہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے کہ میں کبھی دور دراز کا سفر کرتا ہوں تو سیکنڈ کلاس کے ڈبے میں بیٹھتا ہوں، عیش و آرام کی خاطر نہیں بلکہ نماز کی خاطر، اب جو آیا ہوں تو سیکنڈ کلاس میں آیا ہوں اور جاؤں گا بھی سیکنڈ کلاس میں (ان شاء اللہ تعالیٰ)۔ سیکنڈ کلاس کے ڈبے میں اطمینان سے نماز کا موقع ملتا ہے تھرڈ کلاس میں اطمینان سے نماز کا موقع نہیں ملتا۔ میں اپنے پیسے سے سفر کرتا ہوں۔ خلافت کمیٹی کا اگرچہ میں صدر ہوں، لیکن کمیٹی کی رقم میں نے ذاتی مفاد میں کبھی خرچ نہیں کی ہے۔ اخبار ’’وکیل‘‘ امرتسر نے سمرنا فنڈ کی تمام رقوم خورد برد کر دی ہیں، اس لیے لفجوائے ’’من رآ في نفسهٖ فقد رآ في غيره‘‘ دوسروں پر بدگمانی کرتا ہے۔ اخیر میں حافظ کا یہ شعر سنایا بیاکہ خرقہ من گرچہ وقفِ میکدہ ہاست زمالِ وقف نہ بینی بنامِ من درمے کاکنا ڈاکا کانفرنس کے بعد خلافت کا مسئلہ بہت سست پڑ گیا کیونکہ مصطفیٰ کمال نے خلافت کا خاتمہ کر دیا۔ ہندوستان میں اب صرف کانگریس کی تحریک چلتی تھی جب کبھی کانگریس کے اجلاس ہوتے تھے اور میں بھی شریک ہوتا، تو مولانا داؤد رحمہ اللہ سے ضرور ملاقات ہو جاتی تھی۔ وہ تو باقاعدہ ہر ایک اجلاس میں شریک ہوتے تھے اور میں کبھی کبھار شریک ہو جاتا تھا۔ 1937ء میں جامعہ دارالسلام عمر آباد کی دستار بندی کے جلسے میں آپ عمر آباد تشریف لائے۔ اس موقع پر بھی ملاقات ہوئی تھی اس کے بعد پھر کوئی موقع ملاقات کا نہیں ملا۔ اب حال میں جب میں مغربی پاکستان گیا تو 3 دسمبر 1963ء کو اُن سے شرفِ ملاقات کا موقع ملا۔ یکم دسمبر کو تو میں لاہور پہنچا اور مولانا غلام رسول مہر صاحب کے خوشنما بنگلہ واقع مسلم ٹاؤن میں قیام پذیر رہا۔
Flag Counter