Maktaba Wahhabi

101 - 458
پھر حضرت مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ سے ملنے کے لیے روانہ ہوا۔ پہلے تو میں مولانا محی الدین احمد قصوری سے جا کر ملا، پھر اُن سے کہا کہ میں مولانا سید داؤد غزنوی سے ملنا چاہتا ہوں۔ آپ نے کہا کہ وہ ہسپتال میں ہیں میں بھی اُن سے ملنے کی خواہش رکھتا ہوں، چنانچہ ہم دونوں ہسپتال گئے۔ میں نے نبض دیکھ کر کہا کہ خدا کے فضل سے بیماری تو نہیں ہے، البتہ نقاہت بہت ہے۔ آپ نے کہا کہ ڈاکٹر کی بھی یہی رائے ہے اور کہتے ہیں کہ اب گھر چلے جاؤ۔ چنانچہ آج گھر جانے کا قصد ہے۔ میں نے کہا کہ نقاہت کی دوا میرے پاس ہے۔ اس وقت تو تیار نہیں ہے لیکن وطن سوات جا کر بناؤں گا اور ایک کورس آپ کی خدمت میں بھیج دوں گا۔ آپ نے فرمایا کہ ضرور بھیجیے میں ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور استعمال کروں گا۔ میں نے مولانا ظفر علی خان کے چند طنزیہ اشعار سنا دیے جن کو وہ سن کر بہت ہنسے۔ بات یہ ہوئی تھی کہ تحریک نمک میں جب پولیس نے آپ کو گرفتار کر لیا، تو آپ پولیس کے ساتھ جاتے نہیں تھے۔ پولیس نے مجبور ہو کر آپ کو اُٹھا کر موٹر میں بٹھا دیا۔ جب کورٹ پہنچائے گئے تو موٹر سے اُترتے نہ تھے، پھر پولیس نے آپ کو پکڑ کر جج کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا جب سزا ہوئی تو جیل جاتے نہ تھے پھر پولیس نے پکڑ کر موٹر میں بٹھا دیا۔ جیل پہنچے تو اُترتے نہ تھے، پھر پولیس نے پکڑ کر موٹر سے اُتارا۔ مولانا ظفر علی خان صاحب بھی جیل میں تھے۔ یہ کشمکش دیکھ کر چند اشعار فی البدیہہ موزوں کر دیے۔ ان میں سے چند اشعار یہ ہیں: دی مولوی داؤد کو چڈی جو پولیس نے احباب نے پوچھا یہ تعجب کہ یہ کیا ہے کیوں لد کے چلے دوشِ حکومت پہ حضور آج حضرات کی سواری کا طریقہ یہ نیا ہے فرمانے لگے ہنس کے کہ میں عالمِ دیں ہوں اور مرتبہ سرکار میں عالم کا بڑا ہے اس واسطے مرکب کے عوض فرطِ ادب سے خود اپنے تئیں آپ حکومت نے کیا ہے ہے فخر یہ مجھ کو کہ مری ران کے نیچے خود حضرت عیسیٰ کی سواری کا گدھا ہے پھر آپ نے جامعہ دارالسلام عمر آباد کے متعلق دریافت کیا۔ میں نے کہا کہ اچھی حفاظت میں ہے۔
Flag Counter