حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کا مکتوبِ گرامی خلیفہ اجل حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کرمفرائے محترم مولانا سید ابوبکر غزنوی دام مجدہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! گرامی نامہ سے مشرف فرمایا۔ تعمیلِ حکم کے لیے چند سطریں لکھی ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ دل کا داعیہ بہت کچھ لکھنے کا تھا، مگر معذور ہو گیا اسی کو قبول فرما کر ممنون فرمائیں۔ والسلام بندہ محمد شفیع 1993-06-18 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی ذاتِ گرامی سے احقر کا تعارف تو بہت قدیم سے تھا۔ لیکن 1368ھ، 1948ء میں ہجرت پاکستان کے بعد سے مسلسل ملاقاتوں اور بہت سے دینی کاموں میں رفاقت کا شرف اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا۔ مولانا کو قریب سے دیکھا۔ اُن کے جن علمی، عملی، اخلاقی فضائل و کمالات کا مشاہدہ ہوا، افسوس ہے کہ اپنی طویل علالت اور ضعف عمر کے سبب اب یہ ناکارہ اُن میں سے کوئی حصہ بھی لکھنے پر قادر نہیں۔ اس وقت صرف چند جملے لکھنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ احقر نے حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کو علمی کمالات کے علاوہ عملی اور اخلاقی کمالات سے بہت آراستہ پایا۔ وہ ایک باخدا بزرگ تھے۔ اہل حدیث ہونے کے باوجود ائمہ مجتہدین اور علماء سلف صالحین کا احترام و عقیدت اُن کے قلب میں ان حضرات کے مقلدین سے کم نہ تھا۔ حنفی علماء سے روابط اور تعلقات بہت گہرے تھے۔ اُنہوں نے اپنے عمل سے اجتہادی اختلافات کی حدود لوگوں کو اچھی طرح بتلا دی تھیں۔ وظائف و نوافل کے پابند تھے۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ صبح کی نماز کے بعد چالیس مرتبہ یہ دعا پڑھا کرتے |