Maktaba Wahhabi

97 - 458
ڈیلیگیٹ اور خاص کر پنجابی نمائندے سے مولانا آزاد کی تقریر سننے کے لیے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے۔ امرتسر والے ڈیلیگیٹوں نے مولانا غزنوی رحمہ اللہ سے کہا کہ آپ ہی مولانا آزاد رحمہ اللہ سے کہیے کہ تقریر فرمائیں۔ مولانا غزنوی صاحب رحمہ اللہ نے میرے سامنے مولانا آزاد رحمہ اللہ سے کہا کہ لوگ آپ کی تقریر سننے کی بہت خواہش رکھتے ہیں۔ مولانا آزاد رحمہ اللہ نے کہا کہ جب آپ کہتے ہیں، تو ضرور آج رات کو عام اجلاس میں تقریر کروں گا، چنانچہ رات کے 9 بجے سے 10 بجے تک مولانا آزاد نے پُر حقائق اور ولولہ انگیز تقریر فرمائی۔ مسئلہ خلافت کی اہمیت اور وضاحت بڑی عمدگی کے ساتھ کی۔ مسٹر لائیڈ جارج کی وعدہ خلافی کی قلعی کھول دی اور صاف اور غیر مبہم الفاظ میں فرمایا کہ لائیڈ جارج کی یہ وعدہ خلافی آزاد ہند کا پیش خیمہ ہے۔ انگریزی حکومت سے دو غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ ایک تو اس کے وزیراعظم مسٹر لائیڈ جارج کی وعدہ خلافی، جو ترکی حکومت کے ساتھ کی گئی ہے اور دوسری غلطی جلیانوالہ باغ کی گولہ باری ہے۔ اول الذکر سے مسلمانان ہند جو انگریزی حکومت کے دل سے وفادار تھے، سخت برافروختہ ہو گئے ہیں اور ثانی الذکر سے تمام باشندگان ہند کے دلوں میں انگریزی حکومت کے خلاف جذبات بھڑک گئے ہیں۔ خدا شرے بر انگیزد کہ خیرے ماوراں باشد مولانا آزاد کی اس پُرمغز تقریر سے تمام حاضرین بہت ہی متاثر ہوئے۔ اختتام جلسہ پر لوگ مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ کا شکریہ ادا کر رہے تھے کہ ان کے کہنے سے مولانا آزاد رحمہ اللہ نے تقریر فرمائی، ورنہ وہ تقریر کرنا نہیں چاہتے تھے۔ تین مہینے کے بعد مدراس میں خلافت کانفرنس زیرِ صدارت مولانا شوکت علی منعقد ہوئی۔ اس موقع پر میں نے مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کو خط لکھا کہ کانفرنس میں آ کر شریک ہو جائیے آپ نے جواب دیا کہ میں ابھی مولانا آزاد رحمہ اللہ سے مل کر دہلی سے آیا ہوں۔ مولانا آزاد کا ارادہ مدراس کانفرنس میں شرکت کا نہیں ہے، اس لیے میں شریک نہیں ہوں گا۔ تین ماہ کے بعد کلکتہ میں کانگرس کا اسپیشل اجلاس زیرِ صدارت لالہ لاجپت رائے
Flag Counter