Maktaba Wahhabi

96 - 458
یہ اشعار پڑھنے سے تمام مجمع پر سکتہ جیسی کیفیت طاری ہو گئی۔ میرے سامنے ایک خوش شکل نوجوان بیٹھے تھے، وہ داد دینے میں سب سے آگے تھے اور ہر شعر پر زور سے پکار پکار کر کہتے تھے ’’مکرر کہیے۔‘‘ یہ سن کر ڈاکٹر صاحب پھر اسے دُہرا دیتے تھے۔ میں نے ایک آدمی سے پوچھا کہ یہ جوان کون ہیں؟ اُنہوں نے کہا کہ سید داؤد غزنوی ہیں۔ میں نے کہا: وہی داؤد غزنوی جو مارشل لاء کی گرفت میں آئے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں وہی داؤد غزنوی ہیں، کل ہی رہا ہوئے ہیں۔ اجلاس کے اختتام پر میں ان سے ملا اور رہائی پر مبارک باد دی۔ یہ میری پہلی ملاقات تھی جو مولانا سید داؤد غزنوی سے ہوئی تھی۔ ایک مہینے کے بعد بمبئی میں خلافت کانفرنس، زیر صدارت غلام محمد بُھرگری منعقد ہوئی۔ حضرت مولانا آزاد رحمہ اللہ بھی اس میں شریک تھے اور مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ مع چند ہمراہیوں کے امرتسر سے آ کر شریک ہوئے تھے۔ مظفر آباد ہال جس میں کانفرنس کی سبجیکٹ کمیٹی کے اجلاس ہوا کرتے تھے، اس میں تمام ڈیلی گیٹ اقامت پذیر تھے۔ مولانا غزنوی رحمہ اللہ بھی اس میں مقیم تھے اور راقم الحروف بھی اسی ہال میں اقامت پذیر تھا۔ رات اور دن اُن سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ دس دن تک ہم ساتھ رہے۔ آپ کو حضرت مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ سے کمال عقیدت مندی تھی اور مولانا کا زیادہ رجحان بھی مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی طرف تھا۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی ہو سکتا ہے۔ کانفرنس کے اجلاسوں میں مولانا آزاد نے کوئی تقریر نہیں کی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک ماہ قبل مولانا محمد علی جوہر خلافت کے نمائندہ بن کر لندن تشریف لے گئے تھے، تاکہ مسٹر لائیڈ جارج وزیراعظم برطانیہ سے درخواست کر کے ملاقات کریں اور خلافت کا مسئلہ انہیں سمجھا دیں۔ یہ کانفرنس ان کی تائید میں منعقد کی گئی تھی لیکن مولانا آزاد کو اس قسم کی وفد بازیوں اور درخواستوں سے اتفاق نہیں تھا۔ آپ کا نظریہ تھا کہ خدا پر اعتماد کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو کامیابی کا ذریعہ بنا دینا چاہیے۔ مولانا شوکت علی صاحب رحمہ اللہ اور دوسرے متعدد لیڈروں نے مولانا آزاد رحمہ اللہ سے درخواست کی کہ آپ کوئی مؤثر تقریر فرمائیں لیکن مولانا آزاد رحمہ اللہ تقریر کرنے سے انکار کر رہے تھے۔ تمام
Flag Counter