تھا، ان کے ساتھ حافظ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ حافظ صاحب مرحوم کے اردگرد اس وقت پچاس ساٹھ افراد کا مجمع تھا اور حافظ صاحب خود تو خاموش بیٹھے تھے، لیکن ادھیڑ عمر کے ایک صاحب پاکستان میں جماعت اہل حدیث کے آپس کے اختلافات اور مولانا داؤد غزنوی مرحوم رحمہ اللہ سے اپنی شکایات کا تذکرہ کر رہے تھے۔ میں کچھ دیر تو صبر کے ساتھ سنتا رہا، لیکن پھر مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے قدرے درشتی کے ساتھ عرض کیا۔ ’’حضرات! آپ یہاں پاکستان سے دو اڑھائی ہزار میل دور ایک مقدس مقام پر تشریف رکھتے ہیں۔ کیا اس جگہ بھی یہ ممکن نہیں کہ وہاں کے اختلافات کو بھلا کر باہمی اتحاد اور اعتماد کی فضا پیدا کی جا سکے؟‘‘ میرے اس طرح اچانک توجہ دلانے پر مجمع سناٹے میں آ گیا اور سب لوگ حافظ صاحب مرحوم کی طرف دیکھنے لگے۔ لیکن خدا رحمت نازل فرمائے ان کی روح پر کہ انہوں نے میری مکمل تائید کی اور حکم دیا کہ ان معاملات کا تذکرہ دورانِ حج نہ کیا جائے۔ ساتھ ہی گفتگو کا رخ موڑ کر کچھ وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع فرما دیا۔ مدینہ منورہ میں مولانا کی صحت زیادہ خراب ہو گئی تھی اور دل کا دَورہ پڑ گیا تھا، لہٰذا کچھ نمازیں بھی مولانا نے مجبوراً اپنی قیام گاہ ہی پر ادا فرمائیں، لیکن مسجد نبوی کی جماعت سے محرومی پر شدید رنج اور افسوس مولانا کو ہوتا تھا اور جب بھی طبیعت ذرا سنبھلتی تھی مولانا ضرور مسجد نبوی میں حاضر ہو کر جماعت کے ساتھ نماز ادا فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں مغرب کی نماز کے لیے مولانا کے بالکل ساتھ ان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوا اور اپنی پرانی عادت کی بناء پر میں نے تکبیر تحریمہ سے قبل ہی ’’بطور نیت‘‘ ﴿إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ﴾۔۔۔الخ پڑھا تو مولانا نے فوری طور پر تصحیح کی اور فرمایا کہ یہ دعا تکبیر تحریمہ کے بعد پڑھا کرو، چنانچہ اسی وقت سے میرا معمول بدل گیا اور اب اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں، تو مولانا کی یہ نصیحت اور اس کے ضمن میں خود مولانا یاد آ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے، ان کی فروگذاشتوں سے درگزر کرے اور ان کے درجات |