Maktaba Wahhabi

90 - 458
وہاں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ دوسرے ہی روز رابطہ کا پہلا اجلاس تھا۔ مولانا نے فرمایا کہ تم اس میں میرے ساتھ میرے سیکرٹری کی حیثیت سے شرکت کرو۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور میں رابطہ کی دو نشستوں میں شریک ہوا جن میں سے ایک میں ملک سعود بن عبدالعزیز نے خطاب فرمایا۔ اس اجلاس کی روداد ایک علیحدہ موضوع ہے۔ یہاں صرف اس قدر ذکر مناسب ہے کہ تقریر سے قبل شاہ سعود سے مختلف شرکاء کا تعارف کرایا گیا۔ تو میں نے دیکھا کہ مولانا سے ملتے ہوئے شاہ کے چہرے پر عقیدت و احترام کی ایک جھلک نمودار ہوئی جو خاندانِ غزنویہ کے ساتھ آلِ سعود کے قدیم قلبی تعلق کی آئینہ دار تھی۔ منیٰ میں قیام کے دوران بھی متعدد بار مولانا سے ملاقات کا موقع ملا۔ مولانا کی بڑی صاحبزادی جو اس مبارک سفر میں ساتھ تھیں، منیٰ میں علیل ہو گئیں۔ میری تشخیص کے مطابق ٹائیفائیڈ کا حملہ تھا، چنانچہ علاج بھی میں نے ہی کیا اور سرکاری ہسپتال سے ادویہ بھی میں ہی حاصل کرتا رہا۔ مولانا اس سلسلے میں ایک ایک قدم پر ازراہِ شفقت تشکر و امتنان کا اظہار فرماتے رہے۔ ادھر میں ان کی اس خدمت کی توفیق پانے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہا۔ عرفات سے واپسی پر مولانا کی اپنی طبیعت بھی ناساز ہو گئی تھی، چنانچہ ان کی جانب سے قربانی بھی میں نے ہی کی۔ قیامِ منیٰ کا ایک واقعہ جو اگرچہ براہِ راست مولانا کی ذات سے متعلق تو نہیں ہے، تاہم بہت سبق آموز ہے۔ عرض کرتا ہوں: میرے ایک عزیز جو ایک طویل عرصہ سے سعودی عرب ہی میں مقیم ہیں اور مسلکاً اہل حدیث ہیں، مولانا کی جانب سے قدرے سوءِ ظن میں مبتلا تھے اور حافظ عبداللہ صاحب روپڑی مرحوم سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔ میں نے مکہ مکرمہ کے قیام کے دوران ان سے متعدد بار کہا کہ چلیے میں آپ کو مولانا سے ملواؤں لیکن وہ ٹال جاتے رہے! منیٰ میں ان اے اتفاقاً ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ چلو قریب ہی شیخ المعلمین کی منزل میں حافظ عبداللہ صاحب روپڑی تشریف فرما ہیں، ان سے ملاقات کراؤں۔ مجھے کیا عذر ہو سکتا
Flag Counter