Maktaba Wahhabi

89 - 458
کاش کہ ہماری تمام دینی جماعتوں کے رہنما اور فرقوں کے پیشوا فراخی قلب کی اس نعمت سے بہرہ ور ہو جائیں اور ’’اعجاب المرء بنفسهٖ‘‘ اور ’’اعجابُ كُلِّ ذي رايٍ برايهٖ‘‘ کے مہلک امراض سے شفایاب ہو کر تواضع اور انکسار کو اپنا شعار بنا لیں اور اپنے اپنے مسلک پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے باوجود دوسروں کے اکرام و تکریم کی اس روش کو اختیار کر لیں تو تلخیاں ختم ہو کر رہ جائیں اور صرف وہ اختلاف باقی رہ جائے جسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کے حق میں رحمت قرار دیا ہے!! ایک مختصر سے خطبے اور ایک چھوٹی سی ملاقات سے دل و دماغ نے اس قدر اثر لیا کہ اس کے بعد جب بھی کبھی لاہور آنا ہوا مولانا کی خدمت میں حاضری ضرور دی۔ خود مولانا مرحوم کو بھی راقم الحروف سے ایک خصوصی تعلقِ خاطر قائم ہو گیا تھا اور وہ مجھ پر شفقت فرمانے لگے تھے! چنانچہ ایک بار جب میں نے مولانا سے مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کی جلد اول عاریتاً مانگی تو مولانا نے فرمایا: ’’ڈاکٹر صاحب! اس کتاب کو میں نے آج تک کبھی اپنے سے جدا نہ کیا اور میں کسی دوسرے شخص کو یہ کتاب عاریتاً نہ دیتا، لیکن آپ سے ایک خصوصی محبت ہو گئی ہے جس کی بناء پر انکار نہیں کر سکتا۔‘‘ چنانچہ ایک ماہ کے لیے میں وہ نسخہ منٹگمری لے گیا۔ پھر جب میں اسے واپس لایا تو اس پر نئی چرمی جلد بندھوا لایا جسے دیکھ کر مولانا بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے: ’’میرا پہلے ہی سے یہ اندازہ تھا کہ آپ اس کتاب کے واقعی قدردان ہیں۔‘‘ 62ء میں والدین کے ہمراہ حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی تو مکہ مکرمہ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ مولانا بھی رابطہ عالم اسلامی کے تاسیسی اجلاس میں شرکت کی دعوت پر تشریف لائے ہوئے ہیں، چنانچہ فوراً فندقِ مصر حاضر ہو کر ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ مولانا بھی مجھے
Flag Counter