خطرناک ہے اور ہمیں سختی کے ساتھ اس کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘ اس ضمن میں مولانا نے فرمایا کہ ’’حضرت محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ کے نظریہ وحدتِ وجود پر سب سے سخت تنقید حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے فرمائی اور شدید ترین اختلاف کا اظہار کیا، لیکن اس کے باوجود ان کا ادب و احترام جس درجہ اُنہوں نے ملحوظ رکھا۔ اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ مکتوبات میں ایک مقام پر آپ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’من زلہ بردار اخوانِ ایشانم، لکن چہ کنم؟ معاملہ صفاتِ باری تعالیٰ است۔‘‘ اسی طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم ان ائمہ دین کے دسترخوان کے جھوٹے ٹکڑے کھانے والے ہیں، لیکن کیا کریں، جب معاملہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا آ جاتا ہے تو ہم مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان کے قول کو چھوڑ کر حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کریں۔‘‘ راقم الحروف کے لیے اول تو یہ فراخی قلب ہی بہت غیر متوقع تھی کہ جمعیت اہل حدیث کے صدر اپنی جمعیت کے لوگوں کو ائمہ اربعہ کی تعظیم و تکریم کی اس درجہ شدت کے ساتھ تلقین کریں، لیکن شیخ محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ کے ساتھ حضرت کا تعظیم آمیز کلمہ تو بہت ہی حیرانی کا موجب ہوا۔ چنانچہ جمعہ کے بعد جب ایک جگہ کھانے پر ملاقات ہوئی تو مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے عرض کر ہی دیا کہ ’’حضرت! آپ نے ابن عربی کا تذکرہ تعظیم و تکریم کے ساتھ کیا حالانکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رائے ان کے بارے میں بہت سخت ہے۔‘‘ اس کا جو جواب مولانا مرحوم نے دیا وہ اس قابل ہے کہ سنہری حروف سے لکھا جائے اور دین کے تمام خادم اس کو حرزِ جان بنا لیں۔ میری بات سن کر مولانا نے قدرے توقف کے بعد فرمایا: ’’ڈاکٹر صاحب! ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ابن عربی دونوں ہی ہمارے بزرگ ہیں۔ اپنے آپس کے اختلاف کو وہ جانیں، ہم خورد ہیں اور خورد رہنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں‘‘ مولانا نے یہ الفاظ اتنے شدید تاثر کے ساتھ فرمائے کہ ساتھ ہی ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے! واقعہ یہ ہے کہ میں عرض نہیں کر سکتا کہ مولانا کے اس منکسرانہ قول سے میرے دل میں ان کی عزت میں ایک دم کس قدر اضافہ ہوا اور ان کا احترام کتنا بڑھ گیا!! |