Maktaba Wahhabi

87 - 458
کھلے دل کے ساتھ اس کا اعتراف فرماتے تھے (وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَىٰ) اور اس معاملے میں چھوٹے بڑے کی کوئی تمیز ان کی راہ میں حائل نہ ہوتی تھی۔ ایک انتہائی تلخ احساس جو مولانا پر ہر وقت طاری رہتا تھا اور جس کا بار بار اظہار ہوتا تھا، وہ یہ تھا کہ زندگی کا بیشتر حصہ ایسی سرگرمیوں کی نذر ہو گیا جن میں ’’خارج‘‘ کی مصروفیات کے غلبے نے ’’باطن‘‘ کی جانب اتنا متوجہ نہ ہونے دیا جتنا ہونا چاہیے تھا اور اپنے احساس کے مطابق اس میدان میں مولانا اور اپنے عظیم اسلاف کی روایات کو برقرار نہ رکھ سکے۔ اس خیال کا اظہار مولانا اکثر انتہائی حسرت کے ساتھ کیا کرتے تھے اور بسا اوقات اس تذکرے میں ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے شروع ہو جاتے تھے۔ خاص طور پر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں میں نے مولانا پر اس حسرت کی وجہ سے جو رقت طاری دیکھی، وہ میں کسی طرح نہیں بھول سکتا۔ منٹگمری کے خطبہ جمعہ میں ایک انتہائی اہم بات جو مولانا نے فرمائی (اور جس کی جانب تمام اہل حدیث حضرات کو خصوصی طور پر متوجہ ہونا چاہیے!) وہ یہ تھی کہ ’’اگرچہ ہم ائمہ اربعہ سے اختلاف کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم ان کی عزت نہیں کرتے یا ان کی قدر و منزلت سے آگاہ نہیں ہیں۔ خدا شاہد ہے کہ ہمارے دلوں میں ان کا اسی قدر احترام موجود ہے، جس قدر ان کے مقلدین کے دلوں میں ہے، لیکن ہم ان سے اختلاف کرنے پر مجبور اس لیے ہو جاتے ہیں کہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت ہمارے دلوں میں ان کے اقوال سے بہرحال زیادہ ہے۔‘‘ اس سلسلے میں مولانا نے سامعین (جو اکثر و بیشتر اہل حدیث تھے) کو سخت الفاظ میں تنبیہ کی کہ دوسرے لوگوں کی یہ شکایت کہ اہل حدیث حضرات ائمہ اربعہ کی توہین کرتے ہیں بلاوجہ نہیں ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے حلقہ میں عوام اس گمراہی میں مبتلا ہو رہے ہیں اور ائمہ اربعہ کے اقوال کا تذکرہ حقارت کے ساتھ بھی کر جاتے ہیں۔ یہ رجحان سخت گمراہ کن اور
Flag Counter