Maktaba Wahhabi

86 - 458
سے ان ہی دنوں منٹگمری میں ایک بڑی اہل حدیث کانفرنس مولانا عبدالجلیل صاحب کی وسیع و عریض مسجد میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں پہلی بار مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کو دیکھنے کا موقع ملا اور نہ معلوم کیوں محض رویت ہی سے دل ان کی جانب کھنچتا سا محسوس ہوا۔ مولانا نے اس موقع پر جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا۔ میرے دل نے اس خطبے سے گہرا تاثر قبول کیا اور میرے دماغ پر اس کا ایسا پختہ نقش ثبت ہوا کہ آج کم و بیش گیارہ سال گزر جانے کے بعد بھی کیفیت یہ ہے کہ جیسے میں مولانا کو خطبہ دیتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ میرے لیے اس خطبے کی سب سے زیادہ مؤثر چیز وہ بلا کا سوز اور انتہاء کا درد تھا، جو اس کے ایک ایک لفظ میں رچا اور بسا ہوا تھا۔ تقریر کے دوران مولانا کی آنکھوں میں نمی تو از ابتداء تا انتہاء رہی، لیکن دو ایک بار تو فرطِ رقت سے جذبات بالکل ہی بے قابو ہو گئے۔ خصوصاً مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان صحابی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کرتے ہوئے جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ’’میں جنت میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں‘‘ اور جن کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ اطمینان رکھو ’’اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَجَبَّ‘‘ مولانا نے یہ کہہ کر بے اختیار زار و قطار رونا شروع کر دیا تھا کہ ’’ہائے افسوس انہیں (صحابہ رضی اللہ عنہم کو) کن باتوں کی خواہش و تمنا تھی اور ہم کن خواہشات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔‘‘ راقم الحروف کا اس سے پہلے کا عام مشاہدہ چونکہ یہ تھا کہ عام واعظین و ناصحین عموماً اور اہل حدیث علماء خصوصاً سوز و درد کی دولت سے تہی دامن ہوتے ہیں اور اس کے برعکس ان کی تقریروں پر غلظت اور خشونت کا غلبہ ہوتا ہے لہٰذا میرے لیے یہ ایک بالکل خلاف توقع بات تھی، بعد میں جوں جوں روابط استوار ہوئے اور مولانا کو مزید قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، معلوم ہوا کہ رقت اور سوز مولانا کی طبیعت کا مستقل جزو بن گئے تھے اور تواضع و انکسار کا ہر وقت شدید غلبہ رہتا تھا اور اس کے باوجود کہ اپنے مسلک کے معاملے میں ادنیٰ درجے میں بھی مداہنت گوارا نہ تھی، لیکن قلب انتہائی فراخ تھا اور خیر اور خوبی جہاں اور جتنی نظر آتی تھی
Flag Counter