راقم الحروف اگرچہ 47ء سے 54ء تک یعنی مسلسل سات سال بسلسلہ تعلیم لاہور میں مقیم رہا، لیکن ایک مخصوص نقطہ نظر کے شدید غلبے کے سبب سے صورت حال کچھ ایسی رہی کہ ایک خاص حلقے سے باہر کے کسی صاحبِ فضل و کمال سے ملاقات کی خواہش کبھی پیدا نہ ہو سکی۔ آج جب یہ خیال آتا ہے کہ اسی لاہور میں مولانا مفتی محمد حسن صاحب، مولانا احمد علی صاحب اور مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ علیہم جیسی شخصیتیں موجود تھیں جن کی پُرتاثیر صحبت سے استفادہ کیا جا سکتا تھا، لیکن نہ کیا گیا تو شدید محرومی کا احساس ہوتا ہے اور اس میں مزید تلخی اس مشاہدے سے پیدا ہوتی ہے کہ غالب کے اس قول کے مطابق کہ: ’’دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں!‘‘ آج کا لاہور ان تینوں بزرگوں سے محروم ہو جانے کی بناء پر واقعتاً ویران نظر آتا ہے اور اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ صورت کب پیدا ہو کہ: ’’کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد!‘‘ تعلیم سے فراغت کے بعد جب منٹگمری (حال ساہیوال) میں اقامت پذیر ہوا تو کچھ ہی عرصے بعد بعض وجوہات کی بناء پر دل و دماغ پر اس مخصوص نقطہ نظر کی گرفت ڈھیلی پڑنی شروع ہونی اور نگاہیں اس خاص حلقے سے باہر کے لوگوں کی جانب بھی متوجہ ہوئیں۔ اتفاق |