آگ بھڑک اُٹھی تو حضرت مولانا نے پنجاب کے مختلف اضلاع کا وسیع دورہ کر کے انسانی خون بہائے جانے کے خلاف بہت درد مندی سے دن رات کام کیا۔ مجھے حضرت مولانا کو قریب ترین زاویہ سے دیکھنے کا موقع اس وقت ملا جب پنجاب میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد میاں ممتاز دولتانہ کی وزارت کو ختم کر کے ملک فیروز خاں نون کو اقتدار سونپا گیا۔ اس سے پہلے میں حزبِ اقتدار کے بنچوں پر اور مولانا حزبِ اختلاف کے بنچوں پر آمنے سامنے بیٹھا کرتے تھے۔ دولتانہ کے رخصت ہوتے ہی اپوزیشن کے وہ تمام اراکین جن کا تعلق جناح مسلم لیگ یعنی ممدوٹ گروپ سے تھا، راتوں رات حزبِ اختلاف سے حزبِ اقتدار کے قالب میں ڈھل گئے اور سرکاری بنچوں پر جا بیٹھے، لیکن جن بزرگوں نے اپوزیشن بنچوں پر میاں عبدالباری مرحوم کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا، ان میں حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ بھی شامل تھے۔ حضرت مولانا ایسے وضع دار انسان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ ایک غیر جمہوری عمل کے تحت وزارت میں تبدیلی سے وہ بھی اپنے سیاسی مؤقف میں مصلحت کے زیر اثر تبدیلی کر لیتے۔ ادھر میں نے حزبِ اقتدار کے بنچوں کو چھوڑ کر حزبِ اختلاف میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ میں ایک غیر جمہوری عمل کے ذریعے وزارت میں تبدیلی کے خلاف ہونے کے علاوہ یونیورسٹیوں کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کرنے کے لیے کسی قیمت پر تیار نہیں تھا۔ چنانچہ جب میاں ممتاز دولتانہ اور ان کے دو اڑھائی درجن ساتھی مسلم لیگ سے نام نہاد وفا شعاری کے ڈھگوسلے کی بناء پر بدستور حزبِ اقتدار کی بنچوں پر بیٹھے رہے، میں حضرت مولانا کے بنچ پر ان کے ساتھ والی سیٹ پر آ بیٹھا۔ حالانکہ میں اپوزیشن کے بنچوں پر نووارد تھا لیکن اپوزیشن نے مجھے اپنا سیکرٹری جنرل چن لیا۔ میاں عبدالباری اس ننھی منی اپوزیشن کے قائد منتخب ہوئے۔ پارٹی میں کل گیارہ اراکین تھے جن میں دو غیر مسلم مسٹر سی ای گبن اور مسٹر سنگھا بھی شامل تھے۔ اس ننھی منی اپوزیشن نے اکثریتی پارٹی کو بارہا ناکوں چنے چبوائے۔ اس ڈیڑھ دو سال کے عرصے میں میں نے حضرت مولانا کو بہت قریب سے دیکھا اور میں ان کے اندازِ فکر اور طریقہ عمل سے بےحد متاثر ہوا۔ وہ پارٹی کی میٹنگ میں ہمیشہ مقررہ وقت |