Maktaba Wahhabi

79 - 458
کی سی آن بان کے ساتھ برطانوی امپیرلزم کے سنگین حصار کے خلاف معرکہ میں حصہ لیا اور اس راستے کی صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے قید و بند کی آزمائشوں میں ثابت قدم رہے۔ اُنہوں نے ’’احرار‘‘ اور کانگرس کے پلیٹ فارم کو اپنی انٹی امپیرلسٹ (سامراج دشمن) سرگرمیوں کا مرکز بنایا، لیکن جب ان پر یہ واضح ہو گیا کہ انٹی امپیرلزم کی جنگ ختم ہونے کو آ رہی ہے اور اب نئے ہندوستان میں مسلمانوں اور اسلام کے حفظ و بقاء کے لیے جدوجہد کرنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز سے انگریزی سامراج کے خلاف جہاد میں حصہ لینا ضروری تھا تو انہوں نے ایک مردِ مسلمان کی سی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا۔ 1936ء سے 1947ء تک مسلم لیگ کا پلیٹ فارم مسلمانوں کی انقلابی سیاسی جدوجہد کا نشان بن چکا تھا۔ مسلم لیگ اپنے قائد کی زیرِ قیادت برصغیر میں مسلمانوں کے لیے حقِ خود ارادیت کے لیے جنگ جاری کر چکی تھی۔ مولانا نے اس جہاد کی اہمیت اور نوعیت کا احساس فرماتے ہی اپنی ان بیش بہا قربانیوں کے ریکارڈ کو جو وہ احرار اور کانگریس کے پلیٹ فارم سے استخلاصِ وطن کے لیے تعمیر کر چکے تھے، فراموش کرتے ہوئے قائداعظم رحمہ اللہ کے شانہ بشانہ تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے بھرپور حصہ لینے کا اعلان کیا۔ ان کے اس اعلان سے مسلم لیگ کو بےحد تقویت حاصل ہوئی۔ حضرت مولانا رحمہ اللہ کی مسلم لیگ میں شمولیت کے بعد میں نے لاہور میں ان کی پہلی میٹنگ میں ان کی تقریر ’’ڈان‘‘ دہلی میں رپورٹ کی تھی۔ انہوں نے اس موقع پر فرمایا کہ ہم نے کانگریس کے پلیٹ فارم سے اس لیے قربانیاں نہیں دی تھیں کہ آج اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ہم مذہبوں کو غیر مسلموں کے ہاتھوں اتنی بے دردی سے ذبح ہوتے دیکھیں اور انگریز کے جانے کے بعد ابد تک کے لیے ہندوؤں کی غلامی میں چلے جائیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو اپیل کی کہ وہ برصغیر میں اسلام کی سربلندی کے لیے آپس میں متحد ہوں۔ جب 1947ء میں خضر وزارت کے مستعفی ہونے کے بعد پنجاب میں فرقہ وارانہ فسادات کی
Flag Counter