مجھے یاد ہے کہ جب وہ پنجاب میں کانگرس کے صدر منتخب ہوئے تو ہندوستان ٹائمز کے نامہ نگار متعینہ لاہور (مسٹر آنند سروپ) نے مولانا کے حسن و جمال پر نصف کالم کے برابر ڈسپیچ لکھا۔ مولانا علم و فضل کے سمندر تھے۔ وہ ایک عظیم مقرر تھے۔ پارلیمانی آداب سے خوب آگاہ تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے حسنِ صورت کے ساتھ حسنِ سیرت سے بھی بے پناہ طور پر نوازا تھا۔ وضعداری اور شرافت کا یہ عالم تھا کہ عبداللہ ملک کی والدہ کا انتقال ہوا تو دل کے عارضے میں مبتلا ہونے کے باوجود ایک دور دراز قبرستان میں نمازِ جنازہ پڑھانے کے لیے تشریف لائے۔ انہیں بسترِ علالت پر یہ بتایا گیا تھا کہ مرحومہ نے وصیت کی تھی کہ ان کی نمازِ جنازہ حضرت مولانا پڑھائیں۔ میں اہل سنت و الجماعت میں بریلوی مکتبِ فکر کا پیرو ہوں اور اس لحاظ سے دیوبندی مکتبِ فکر کا کسی حد تک نقاد رہا ہوں۔ حضرت مولانا نے مجھے انتہائی شفقت اور محبت سے یہ سمجھانے کی کوشش فرمائی کہ دیوبندی بھی اُسی طرح مسلکِ امام ابو حنیفہ کے پیرو ہیں جس طرح بریلوی ان کے مقلد ہیں۔ ایک مرتبہ میرے اخبار ’’اقدام‘‘ میں بریلوی، وہابی کے موضوع پر ’’مفکر‘‘ (حضرت مولوی محمد ابراہیم علی چشتی) اور ’’الاعتصام‘‘ کے ایڈیٹر کے درمیان بحث چل نکلی، تو ایک دن حضرت مولانا نے مجھے بلا کر نصیحت فرمائی کہ اس بحث کو بند کر دیا جائے، اس لیے کہ آزاد مملکتِ پاکستان میں مسلمانوں میں تفرقہ بازی سے نئی مملکت کے استحکام میں رخنہ اندازی ہو گی۔ حضرت مولانا ایک عظیم انٹی امپیرلسٹ تھے۔ انہوں نے یہ اچھی طرح سے محسوس فرما لیا تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کی سب سے بڑی دشمن برطانوی امپیرلزم ہے، جس نے ان کے دین کو Subvert کرنے کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور جس نے ملائیشیا سے لے کر مغربِ اقصیٰ تک مسلمانوں کی سیاسی آزادیاں سلب کر رکھی ہیں، اس لیے مسلمانوں کو سیاسی آزادی سے بہرہ ور کرنے اور اسلام کو ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مؤثر، بھرپور اور انقلابی کردار ادا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انگریزوں کو سرزمینِ ہند سے باہر نکال دیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے ایک مردِ مجاہد |