مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کے نامِ نامی سے میں اس صدی کے تیسرے عشرے کے اواخر میں شناسا ہوا، جب کہ میں نے اپنے ایک استاد چوہدری سردار خاں کے نام آنے والے ایک ہفتہ وار اخبار ’’التوحید‘‘ کا مطالعہ شروع کیا۔ یہ اخبار امرتسر سے حضرت مولانا کی زیرِ ادارت شائع ہوتا تھا۔ میں اُن دنوں گورنمنٹ ہائی سکول راموں ضلع جالندھر میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اس کے بعد مجھے حضرت مولانا کو احرار، کانگرس اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارموں سے سرگرمِ عمل دیکھنے کے مواقع میسر آتے رہے۔ میں نے ان کی پنجاب اسمبلی میں معرکہ آراء تقریروں کی ’’سِول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘، ’’ڈان‘‘ اور ’’نوائے وقت‘‘ میں رپورٹنگ بھی کی۔ اسمبلی میں اُن کے آمنے سامنے بیٹھنے کا لطف بھی اُٹھایا۔ آخرِ کار 1953ء میں میں ان کے شانہ بشانہ پنجاب اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے بنچوں پر بیٹھنے کے اعزاز سے مفتخر بھی ہوا۔ حضرت مولانا میرے بنچ فیلو تھے۔ 1962ء کے دورِ ایوبی کے پہلے انتخابات کے موقع پر اُنہوں نے اوکاڑہ کی اہل حدیث تنظیم کو میری حمایت پر آمادہ کرنے کے لیے انجمن کے ایک عہدہ دار جناب مولانا معین الدین لکھوی کو اپنے دستخطوں سے ایک رقعہ لکھا جس میں حضرت مولانا نے فرمایا: ’’میاں محمد شفیع اسمبلی کے شیر ہیں، ان کی مدد سے گریز نہ کیا جائے۔‘‘ یہ مولانا کی کریم النفسی تھی کہ وہ مجھ سے ایک نیاز مند کی اس طرح تالیفِ قلب فرماتے تھے۔ حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ ایک انتہائی خوبصورت، رعنا اور متوازن انسان تھے۔ |