عہد میں انہیں اپنا وطن چھوڑنا پڑا اور وطن کے ساتھ بہت سی نایاب چیزوں سے بھی دستبردار ہونا پڑا۔ لیکن ان کی عزیمت و استقامت میں کوئی فرق نہیں آیا، انہوں نے خطبات کا سلسلہ بھی جاری رکھا، جماعتی سرگرمیوں میں بھی قائدانہ طور پر حصہ لیتے رہے۔ ساتھ ہی ساتھ شیش محل روڈ پر اُنہوں نے ایک بلند پایہ عربی درسگاہ پوری شان کے ساتھ پھر قائم کر دی۔ مولانا کا ذاتی کتب خانہ متعدد اعتبارات سے گنجینہ گوہر کہلانے کا مستحق تھا۔ ہر علم و فن سے متعلق بہترین کتابوں کا ذخیرہ ان کے پاس موجود تھا اور جو کچھ تھا وہ اس پر قانع نہیں تھا، ہر ماہ اس میں گراں بہا اضافہ ہوتا رہتا تھا۔ مصر اور بیروت وغیرہ کی تازہ ترین مطبوعات گراں قیمت پر وہ خریدتے تھے اور بڑے ذوق و شوق سے ان کا مطالعہ کرتے تھے، میں نہیں کہہ سکتا اپنے نایاب کتب خانے سے عاریتاً وہ دوسروں کو کتابیں دیتے تھے یا نہیں؟ لیکن دو تین مرتبہ مجھے بعض مصری مطبوعات کی ضرورت پیش آئی اور مولانا نے ازراہِ کرم فوراً مطبوعہ کتاب مجھے مرحمت فرما دی۔ مولانا سے میری ملاقات کم تھی۔ صرف چند مرتبہ شرفِ نیاز حاصل ہوا۔ لیکن جب کبھی ملاقات ہوئی، ان کے حسنِ اخلاق اور لطف و کرم کا نہ مٹنے والا نقش لے کر اُٹھا۔ آخری مرتبہ اس وقت ملاقات ہوئی جب وہ مرض الموت میں مبتلا ہو چکے تھے اور نچلی منزل میں قیام کا انتظام کر لیا تھا۔ مولانا محمد حنیف کے ساتھ ایک روز رات کو عیادت کے لیے مجھے ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا۔ میں خود بھی دل کا مریض ہوں، لیکن مولانا کے پاس جب تک بیٹھا رہا، وہ اس دلچسپی اور بے پروائی کے ساتھ باتیں کرتے رہے کہ میں یہ محسوس کرنے لگا کہ مولانا دل کے مریض ہیں نہ میں! ۔۔ بھلا دل کے مریضوں میں یہ اُمنگ اور ترنگ کہاں ہوتی ہے؟ میں گیا اس نیت سے تھا کہ اپنے تجارب کی روشنی میں مولانا کو پرہیز وغیرہ کے سلسلے میں کچھ مشورے دوں گا، |