مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کو دیکھ کر بے ساختہ الله جميل و يحب الجمال کے الفاظ زبان پر آ جاتے تھے، وہ خوب صورت اور خوب سیرت بھی تھے۔ اُن کی شخصیت میں جمال تھا۔ اُن کے نطق میں جمال تھا، ان کے کردار میں جمال تھا۔ مولانا کا علم و فضل ایک مستقل عنوان کا طالب ہے۔ آپ برصغیر کے ایسے دودمانِ عالی سے تعلق رکھتے تھے، جس کے علمی و روحانی فیوض سے پاک و ہند کے لوگ کبھی سبکدوش نہیں ہو سکتے۔ مولانا کو جو علمی اور روحانی میراث ملی تھی، وہ اس کے سزاوار بھی تھے اور امین بھی۔ مولانا نے اگر سیاست کے ہنگاموں سے دامن نہ اُلجھایا ہوتا یا سیاست نے مولانا پر دھاوا نہ بولا ہوتا اور ان کی سرگرمیاں صرف علمی حدود تک محدود رہتیں تو بلاشبہ اُن کے فیوض و کمالات لازوال صورت اختیار کر لیتے۔ ہمہ وقتی سیاسی اور جماعتی مصروفیتوں کے باوجود علمی خدمات سے وہ کبھی غافل نہیں ہوئے، ان کے خطبات جمعہ اور فتاویٰ جو مختلف اوقات میں میری نظر سے گزرے، اس حقیقت کے شاہد ہیں کہ ان کا مطالعہ کس درجہ عمیق تھا، آپ معاملات و مسائل پر کس درجہ گہری نظر رکھتے تھے اور جو استفتاء ان کے سامنے آتا تھا، اس کے تمام پہلوؤں پر غور کر کے اپنے جواب میں کیسے کیسے علمی نکات پیدا کرتے تھے۔ مولانا کی تعمیری صلاحیتیں بھی کچھ کم باعثِ رشک نہ تھیں۔ 1947ء کے عالم آفتاب نے |