لیکن جب واپس آیا تو اپنے دیرینہ تجربات کو محلِ نظر سمجھ کر ان پر نظرثانی کی ضرورت محسوس کرنے لگا۔ مولانا نے جس جماعت کو بھی شرفِ قبولیت بخشا، پورے خلوص کے ساتھ اس کی خدمت کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مکتب فکر میں وہ عزت اور احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کی دیانتِ فکر ہر طرح کے اختلافات کے باوجود اصول موضوعہ کی طرح اپنی جگہ مسلم تھی، اس زمانے میں کسی شخص کا یہ مقامِ رفیع حاصل کر لینا بہت بڑی بات ہے اور یہ بات اس شخص میں پیدا ہو سکتی ہے جو واقعی بڑا ہو اور کوئی شبہ نہیں آپ ہر اعتبار سے عظیم و جلیل تھے۔ صبح تک وہ بھی نہ چھوڑی تو نے اے بادِ صبا یادگارِ شمع تھی محفل میں پروانے کی خاک |