Maktaba Wahhabi

67 - 458
ہم مذاق بھی تھے، ہمنوا و ہم خیال بھی تھے۔ غرض میرے لیے وہ بہت کچھ تھے۔ میں ان کے ساتھ 1942ء سے 1945ء تک لاہور سنٹرل جیل میں رہا۔ انسان جیسا بھی ہو اور جس حوصلہ اور ظرف کا ہو جیل کے دن ننگا کر دیتے ہیں۔ مولانا جیسے باہر تھے، ویسے ہی اندر تھے۔ وضعدار، باغیرت، اشجع، نستعلیق۔ مجال ہے بول چال میں کوئی سا لفظ غیر ضروری ہو یا ان کی گردن کسی عرض و التجاء کے دروازہ پر جھکتی ہو۔ بڑی تمکنت لیکن اخلاق سے بات چیت کرتے۔ زبان و بیان پر انہیں قابو حاصل تھا۔ خطابت و تحریر دونوں میں ملکہ، جس سے ان کے خیالات و اظہار کا پیرایہ منجھ گیا تھا۔ مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ سے انہیں جو تعلق خاطر تھا، یہ رشتہ بھی ہمارے رشتہ کی اساس تھا۔ وہ سیاسی اختلافات کو تعلقات کی راہ میں مزاحم نہ ہونے دیتے تھے۔ جس سے ملتے سراپا محبت اور سراپا شفقت ہو کر ملتے۔ وضعداری کا یہ حال تھا کہ میرے جوان بھائی اقبال کا انتقال ہو گیا تو تین دن تک بالالتزام آتے رہے۔ ’’چٹان‘‘ بڑے شوق سے پڑھتے۔ ہمیشہ خوبیوں پر نگاہ رہتی، کبھی عیب بینی یا عیب جوئی نہ کرتے بلکہ اس کو بدبینی پر معمول فرماتے۔ ایک دفعہ ’’چٹان‘‘ سے کسی عام مسئلہ پر لغزش ہو گئی تو فون پر ٹوکا، ورنہ سینکڑوں دفعہ ان مشفقانہ الفاظ میں اظہار خوشنودی فرمایا کہ ان کے بزرگانہ التفات کی وسعتوں پر حیرت ہوتی کہ ہم جیسے بے مایہ لوگوں کے لیے بھی ان کے دل میں جگہ ہے۔ جن دنوں ’’چٹان‘‘ نے قادیانیوں کا تعاقب کیا، انہی دنوں فون پر فرمایا کہ تم پر اللہ کی رحمت ہو، ہم لوگوں سے بازی لے گئے۔ پھر جانے کیا کچھ نہیں کہا، کیسے کیسے کلماتِ تحسین زبان پر لاتے رہے اور میں یہی کہتا رہا، مولانا! یہ سب آپ ایسے بزرگانِ سلف کی نگاہِ کرم کا فیض ہے۔ وہ فرماتے: یہ اللہ کا دین ہے ہم لوگوں کی زبان کو قفل لگا ہوا تھا تم نے ہمیں جگا دیا ہے۔ ایک ہی برس تو ہوا ہے، لاہور میں اہل حدیث کانفرنس کا سالانہ اجتماع تھا۔ آخری
Flag Counter