Maktaba Wahhabi

68 - 458
اجلاس کے وہ صدر تھے اور میں آخری مقرر۔ ایک لاکھ سے زائد مجمع۔ مجھ ایسا گنہگار داڑھی مونچھیں صاف، کہاں کہاں سے اللہ والے اور دین والے نہیں آئے تھے۔ میں بول رہا تھا اور مولانا اشکبار تھے۔ اُن کی نورانی داڑھی پر آنسوؤں کے موٹے موٹے قطرے بہہ رہے تھے اور کس کس ادا سے وہ دعائیں دے رہے تھے۔ غور کرو، رات کہاں سے کہاں آ گئی، کتنی گہری ہو گئی۔ دیکھتی آنکھوں اُن لوگوں کا قافلہ ہی روپوش ہو گیا، جو ہمارے قافلہ کو آزادی کی منزل پر لائے تھے۔ اُنہوں نے کتنی جدوجہد کی، کتنی مصیبتیں اُٹھائیں، کتنے غم سہے، کتنے صدمے برداشت کیے۔ رات اُن کی، دن کسی کا۔ ہمارے ہاں اُردو نثر میں پنجابی شعر درج کرنے کی عادت نہیں کیونکہ قلعہ معلیٰ کی زبان پر آنچ آتی ہے، ورنہ بردا کا یہ مصرع کتنا حسبِ حال تھا ؎ برداسیاں درختاں دی کرے راکھی میوہ پکے تے کھان نصیب والے (بردا سینکڑوں درختوں کی آبیاری کرتا ہے مگر جب پھل لگتا ہے تو دوسرے کھا جاتے ہیں (نصیب والے) یعنی محنت اس کی اور حاصلِ محنت دوسروں کا ہوتا ہے)
Flag Counter