تحریکِ خلافت میں سیاسی زندگی کی راہ پر نکلے اور اس وقت کلمۃ اللہ اور آوازہ حق بلند کیا جب آزادی کا نام لینے پر زبانیں کاٹ لی جاتیں اور انقلاب زندہ باد کہنے کی پاداش میں کوڑے لگتے تھے۔ پہلی دفعہ صوبہ میں جمیعۃ العلماء کی بنیاد رکھی، خلافت کمیٹی بنائی۔ نتیجتاً تین سال بامشقت قید ہو گئی۔ دوسری دفعہ 1925ء میں پکڑے گئے۔ تیسری دفعہ 1927ء میں سائمن کمشن بائیکاٹ کی تحریک میں دھر لیے گئے۔ مجلس احرار قائم ہوئی تو اس کے بانیوں میں سے تھے۔ مدت العمر جنرل سیکرٹری رہے۔ تحریک کشمیر میں چوتھی دفعہ قید ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ میں گرفتار ہو گئے۔ اور ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کی تحریک میں تقریباً تین سال جیل میں رہے۔ 1945ء میں صوبہ کانگرس کے صدر چنے گئے۔ الیکشن لڑا اور دھاریوال کی لیبر سیٹ سے منتخب ہو گئے۔ 1946ء کے وسط میں کانگرس سے الگ ہو کر مسلم لیگ میں چلے گئے۔ پاکستان بنا تو عوامی لیگ میں آ گئے اور دوبارہ صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ غرض اس اعتبار سے وہ ایک سرگرم، مستعد، پرجوش اور ہنگامہ پرور زندگی رکھتے تھے۔ قدرت نے ان میں ایک بہادر انسان کی بہت سی خوبیاں رکھ دی تھیں۔ وہ سر دے سکتے تھے، لیکن ضمیر کا سودا نہیں کر سکتے تھے۔ اس قسم کا کاروبار اُن کے خون ہی سے خارج تھا۔ روایتی علماء کی طرح نہ تو یبوست سے اُن کا خمیر اُٹھا تھا اور نہ وہ اپنے اوپر مسکنت و عاجزی طاری کیے رکھنے کے قائل تھے۔ وہ عاجزوں میں عاجز تھے اور متکبروں میں متکبر۔ وہ ایک سچے موحد تھے۔ اُنہوں نے شرک سے لے کر سرکار تک کا خوف اپنے دل سے نکال رکھا تھا۔ میرے ساتھ اُن کے مراسم ایک زمانہ سے تھے۔ ان تعلقات کی عمر پچیس سال ہو گی۔ وہ ایک راہنما بھی تھے، بزرگ بھی تھے۔ دوست بھی تھے۔ شفیق بھی تھے۔ معلم بھی تھے، |