Maktaba Wahhabi

65 - 458
اعتراف فرماتے تھے۔ یہ واقعہ ہے کہ امرتسر کی دینی زندگی میں سیاسی ہلچل ڈالنے کا آغاز انہی کی بدولت ہوا۔ انہیں پنجاب میں علماء کی جنگ آزادی کا پہلا سالار کہا جا سکتا ہے۔ وفات کے وقت اُن کی عمر ستر برس تھی۔ اخباری روایتوں کے مطابق 1896ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا مولانا عبداللہ غزنوی افغانستان سے جلا وطن ہو کر آئے تھے۔ ابتداءً دہلی رہے، پھر لاہور چلے آئے۔ آخر امرتسر کو اپنی مستقل قیام گاہ بنا لیا اور وہیں کے ہو کے رہ گئے۔ اُن کی نیک نفسی، روحانی بلندی اور جراءت و استغناء کے متعلق بے شمار واقعات زبان زد عام ہیں۔ دو روایتیں علامہ اقبال رحمہ اللہ نے کی ہیں۔ دہلی میں تھے تو 1857ء کی ساڑھ ستی کا زمانہ تھا۔ گورا فوج نے چاروں طرف گولیوں سے ہلاکت کا طوفان اُٹھا رکھا تھا۔ مسجدیں اور ان کے گرد و نواح کا علاقہ خصوصیت سے اس قتلِ عام کا مرکز تھا۔ ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو آپ مسجد کے حوض پر آ گئے۔ گولیاں چلتی رہیں، رائی برابر کھٹکا محسوس نہ کیا۔ اس معجز نما جرأت کو دیکھ کر مقتدیوں نے بھی حوصلہ کیا اور گولیوں کی بوچھاڑ میں وضو کر کے نماز میں لگ گئے۔ دوسرا واقعہ علامہ اقبال نے ایک مکتوب میں لکھا ہے: ’’حدیث کا سبق پڑھا رہے تھے کسی نے مطلع کیا ۔۔ آپ کا بیٹا قتل ہو گیا ہے۔ آپ نے یہ اندوہناک خبر سنی، ایک منٹ خاموش رہے، پھر درس دینے لگے۔‘‘ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ اسی مومن و مجاہد اور عالم و اشجع انسان کے پوتے تھے۔ اس خاندان کو امرتسر میں جو امتیاز و شرف حاصل ہوا، اسی کا نتیجہ تھا کہ غزنویاں کے نام سے ایک محلہ منسوب ہو گیا۔ اسی محلہ میں مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے مدرسہ غزنویہ جاری کیا۔ یہیں سے ہفت روزہ ’’توحید‘‘ نکالا۔ پھر اپنے چچا عبدالواحد غزنوی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد لاہور آ گئے اور یہاں جامع مسجد چینیاں والی میں خطابت کا منصب سنبھالا۔
Flag Counter