Maktaba Wahhabi

64 - 458
دو چار ماہ پہلے عبداللہ ملک کی والدہ مرحومہ کا جنازہ پڑھانے تشریف لائے تو چلا نہیں جاتا تھا، نہ پہچان سکتے تھے نہ بول سکتے تھے۔ بس حواس خمسہ کا بھاؤ بھرم باقی تھا۔ دو آدمیوں کے سہارے آئے جنازہ پڑھایا اور چلے گئے۔ میں نے اُسی وقت محسوس کیا تھا کہ ایک چلتی پھرتی قبر ہے ۔۔ مہمان یک دو نفس۔ نام تو اس صوبہ میں اُن کا اس وقت بھی گونج رہا تھا جب ابھی اس پَود کے نوجوان بساطِ ہستی پر بھی نہیں تھے۔ کوئی پنتالیس برس پبلک لائف میں بسر کیے، کئی حیثیوں کے جامع تھے۔ جماعت اہل حدیث مغربی پاکستان کے امیر تو تھے ہی، لیکن بہت سے گوشے ایسے تھے جہاں ان کا احترام یکساں جذبے کے ساتھ موجود تھا۔ قرآن کے معانی و مطالب سے کماحقہ آگاہ تھے۔ جتنی تفسیریں بھی کلام اللہ کی لکھی جا چکی ہیں ان کے مندرجات سے نہ صرف بخوبی واقف تھے بلکہ ان کے معنوی اختلاف پر بھی تنقیدی نظر رکھتے تھے۔ اسی طرح حدیث و فقہ میں انہیں کمال حاصل تھا۔ اس ضمن میں ان کی تشریحات و تعبیرات کو بھی درجہ اسناد حاصل رہا۔ مرتے دم تک دین کو اپنا ظاہر و باطن بنائے رکھا۔ غرض یہی اُن کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ اسی کے لیے پیدا ہوئے، جوان ہوئے، بوڑھے ہو گئے، حتیٰ کہ اپنے معبودِ حقیقی سے جا ملے۔ اصلاً وہ اُس وبابی تحریک کی گمشدہ تصویروں میں سے ایک تصویر تھے جنہیں انگریزوں نے دار پر کھینچا اور جن کی بدولت برصغیر ولولہ حیرت پیدا ہوا۔ معناً شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کی جاں ہار فوج کے ایک سپاہی تھے۔ اس حقیقت سے شاید کم لوگ واقف ہوں گے۔ پنجاب کے علماء میں سے وہ پہلے عالمِ دین تھے جنہوں نے تحریکِ خلافت کے زمانہ میں انگریزی حکومت کے خلاف اپنا پرچم کھولا۔ پہلے شخص تھے جنہوں نے امرتسر میں انگریزی حکومت کے خلاف وعظ و ارشاد کا سلسلہ شروع کیا اور یہ شرف تاریخ نے اُن کے سپرد کیا کہ وہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو منبر و محراب کے جمود سے کھینچ کر جہاد و غزاء کے میدان میں اُٹھا لائے۔ خود شاہ جی بھی
Flag Counter