6 دسمبر 62ء کی صبح کو میں نے خواب دیکھا کہ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ سے معانقہ فرما رہے ہیں۔ معاً آنکھ کھل گئی، مؤذن پکار رہا تھا الصلوٰة خير من النوم نماز نیند سے بہتر ہے۔ میں خوابوں کے معاملہ میں کچھ زیادہ پریشان ہونے کا عادی نہیں۔ اپنے رب سے پناہ مانگتا ہوا اُٹھ بیٹھا۔ خیال تھا یا ایک دھندلا سا تصور کہ کوئی سی بجلی کسی شاخ پر گرنے والی ہے۔ خوابوں کی تعبیر کے بارے میں جو کچھ میں نے پڑھا ہے، اس سے مختلف کیا ہو سکتا تھا۔ کوئی دس بجے صبح دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ ماسٹر تاج الدین انصاری نے یہ خبر بد سنائی کہ مولانا داؤد غزنوی انتقال فرما گئے ہیں۔ مولانا علیہ الرحمہ ہی کے مکان سے فون آیا تھا کہ نو بجے صبح ایکا ایکی حرکتِ قلب بند ہونے سے اُن کا سفرِ حیات ختم ہو گیا ہے۔ انا لله وانا اليه راجعون خبر اچانک ضرور تھی لیکن غیر متوقع نہ تھی، وہ جانے ہی والے تھے اور کئی مہینوں سے رختِ سفر باندھ رہے تھے۔ موت نے اُن کے چہرے کو تانکنا جھانکنا شروع کر دیا تھا۔ دل کا پہلا دورہ ہی انہیں ہلا گیا تھا۔ وہ مرنے کے لیے تندرست ہوتے رہے۔ اسی دن کے لیے وہ جی رہے تھے۔ معلوم ہوتا تھا جیسے بیماری اُن کو چاٹ گئی ہے۔ ہڈیوں کا ایک ڈھانچ رہ گیا ہے جس میں نفس کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے۔ بیماری تو وہ کئی برس سے تھے۔ مگر پچھلے ایک برس سے پت جھڑکا موسم شروع ہو چکا تھا۔ ابھی |