Maktaba Wahhabi

57 - 458
کی اور مولانا جیسے نوجوان حکومت کی مخالفت کے سنگین کام پر مستعد نظر آنے لگے۔ اُس زمانے میں بعض مرتبہ ہمارے جاننے والے بزرگ ہمیں بازاروں میں پکڑ کر کھڑے ہو جاتے اور کندھوں پر ہاتھ رکھ کر فرماتے تھے: ’’ترکوں کو شکست ہو گئی، جرمنوں کو شکست ہو گئی، آسٹریا کو شکست ہو گئی اب تم نہتے بہادر اٹھے ہو جو انگریزوں کو ہندوستان سے نکالو گے۔ ہوش بھی ہے یا نہیں۔ کیا عقل جواب دے چکی؟‘‘ ایسے سوالوں کا جواب مولانا کو کئی مرتبہ دینا پڑا ہو گا۔ ہر کسی کو ایسے سوالوں کا جواب دینا پڑتا تھا۔ اللہ پر یقین اور اس کی قدرتِ کاملہ پر اعتماد کے مخلصانہ جذبے سے ہی ایسے سوالوں کی بوچھاڑ میں ثابت قدم رہا جا سکتا تھا اور جنہیں یہ نعمت عطا نہ ہوئی ہو وہ اس جذبے کی قدر نہیں کر سکتے، اس لیے ان کی آج کی نکتہ چینیوں پر بھی ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ انگریز حکام نے آنے والے ہیجان کے مقابلے کے لیے رولٹ بل تیار کیا تاکہ ہر تحریکِ آزادی ہندو آزادی ممالک اسلامی کا مقابلہ جبر و تشدد سے کیا جا سکے۔ اس مجوزہ قانون کے ماتحت ملزموں کو وکیل کرنے کی اجازت نہ تھی، نہ وہ اپیل کر سکتے تھے اور نہ ہی قانونی شہادت کی ضرورت سمجھی جاتی تھی، اس لیے عوام و خواص میں ہی نہیں بلکہ حکومتِ ہند کے نامزد ہندوستانی ممبروں میں بھی اس کی سخت مخالفت تھی۔ سرسنکرن نائر جیسے ممبر قانون نے اس کی مخالفت کی اور اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ اسی طرح اور بڑے بڑے ہندو سرکاری افسروں نے بھی مخالفت کی۔ کانگرس نے ملک کی آزادی کے نام پر، مسلم علماء اور دیگر رہنماؤں نے آزادی ملک اور تحفظِ خلافتِ اسلامیہ کے نام پر حکومت کے نئے مجوزہ قانون کی مخالفت شروع کر دی۔ گاندھی جی نے 6 اپریل 1919ء کو سارے ملک میں جلسوں کا اعلان کیا اور لوگوں کو ہڑتال کی تلقین کی۔ پورے ملک میں ہر جگہ کاروبار معطل کیا گیا، لیکن امرتسر میں 6 اپریل سے پہلے ہی ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر سیتہ پال کو گرفتار کیا گیا،
Flag Counter