طرف اس کے ہمنوا ہندو اور مسلمان جشنِ فتح منا کر اپنے لیے خوشنودی حکومت کی سند حاصل کرنے اور دولت دنیا سے کچھ نفع کمانے میں منہمک تھے اور انگریزوں کو یہ خیال بھی آنے نہ دیتے تھے کہ انہیں ہندوستان کے مسلمانوں سے کوئی خطرہ تو کیا کچھ پریشانی بھی ہو سکتی ہے۔ وہ زمانہ تھا جب مولانا محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ اپنی جوانی کا چڑھاوا لے کر آزادی وطن اور سربلندی اسلام کی قربان گاہ کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے گھر سے نکلے۔ آج لوگ بحث کرتے ہیں کہ مولانا مرحوم کو سیاست آتی تھی یا نہیں، مگر وہ یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ جو سیاست ان کو آتی تھی اس کا کوئی شائبہ بھی ان کے نکتہ چینیوں میں موجود تھا یا نہیں۔ جب دنیائے اسلام کی سب سے بڑی سلطنت، سلطنتِ ترکیہ شکست کھا چکی ہو اور یورپ کے اتحادی اپنے تمام وعدوں کو بھول کر سرزمین ترکی پر ہی نہیں بلکہ تمام جزیرۃ العرب پر قبضہ کر رہے ہوں اور عربوں پر مہربانی کرتے ہوئے بھی ان کے ملک کو بہت سے مختلف حصوں میں بانٹ کر علیحدہ علیحدہ مگر بے حیثیت بادشاہتیں بنا رہے ہوں تاکہ نیم آزاد عرب آپس کی کشمکش میں مبتلا ہو کر کسی متحدہ اقدام یا حکمت عملی کے قابل نہ رہیں، جب یہودیوں کے لیے فلسطین کا انعام پیش کیا جا رہا ہو اور شام سے لبنان کو علیحدہ کر کے ایک ضلع کے عیسائیوں کی خاطر ایک مقتدر حیثیت میں رہنے کے لیے ایک چھوٹی سی حکومت کی تشکیل کی جا رہی ہو، جب خود ہندوستان میں حکومت برطانیہ کے ہوا خواہ مسلمانوں کی کوئی کمی نہ ہو، اس وقت بے توپ و تفنگ میدانِ جنگ میں نکلنا اور حکومتِ وقت کی مخالفت کر کے اپنے آپ کو قید و بند کے لیے پیش کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ وہ زمانہ تھا جب مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے 22، 23 برس کی عمر میں اس میدانِ خاردار میں قدم رنجہ فرمانا گوارا کیا۔ 1918ء کے کرسمس میں حکومت نے جشن فتح منانے کا فیصلہ کیا۔ سرکاری آدمی جشن منانے لگے۔ دلی سے علماء کرام نے جشنِ فتح کے بائیکاٹ کی ہدایت |