نے پنجاب میں حریت پسند مسلمانوں کی قیادت کی اور اس طرح ہندو مہاسبھا کے اس طعنے کی تردید کی کہ مسلمانوں کی قوم انگریزی راج کے دوام کی مؤید ہے، لیکن اس کے بعد تاریخ ایک ایسے موڑ پر پہنچ گئی جس پر یہ یقین سا ہو گیا کہ انگریز اب اس ملک میں دیر تک رہ نہیں سکتا، تو سوال پیدا ہوا کہ انگریزوں کے رخصت ہو جانے کے بعد، اس وطن میں مسلمانوں کی مجلسی اور سیاسی حیثیت کیا ہو گی؟ سچی بات یہ ہے کہ یہ نہایت اہم سوال تھا، مگر حریت پسند مسلمانوں کی اکثریت اس نکتے کو (پورے خلوص کے باوجود) نہ سمجھ سکی اور کانگریس سے کوئی تسلی بخش توثیق حاصل کیے بغیر، جنگ آزادی کے ختم ہو جانے اور نیا دور شروع ہونے کے بعد بھی، اسی پرانے خیال پر قائم رہی کہ انگریزوں سے جنگ فریضہ اولین ہے، باقی بعد میں دیکھا جائے گا۔ عاجز راقم کے خیال میں ہمارے اکابر سے بس یہیں بھول ہوئی۔ درحقیقت دوسری عالمگیر جنگ کے خاتمے پر انگریزی استعمار کی چُولیں ڈھیلی ہو چکی تھیں اور آزادی ہند کا چہرہ نظر آنے لگا تھا، مگر ہمارے اکابر کی انگریز دشمنی نے ان کے دماغوں کو مغلوب کیا ہوا تھا اس لیے وہ نیک نیتی سے اپنے پرانے طریقِ کار پر جمے رہے۔ لیکن حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے کانگرس کے اندر اعلیٰ عہدے پر فائز رہنے کے باوجود یہ محسوس کر لیا کہ قائدِاعظم مسلمانانِ ہند کے لیے جس سیاسی شخصیت کی توثیق چاہتے ہیں، وہ اس میں برحق ہیں۔ فی الواقعہ وہ وقت آن پہنچا تھا جب مسلمان اپنی مستقل ملی ہستی کوتسلیم کرانے کے لیے متفق و متحد ہو جاتے۔اِس بصیرت کی بناء پر حضرت غزنوی رحمہ اللہ کانگرس سے الگ ہو کر مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ اس پر انہیں اپنے پرانے رفقاء کے طعنے بھی سننے پڑے مگر ان کا وجدان صحیح تھا اور اس کی تائید بعد کے واقعات نے بدرجہ وثوق کر دی کہ ان کا اقدام بالکل صحیح تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد حضرت غزنوی رحمہ اللہ نے اس ملک کی اسلامی تشکیل کے لیے بڑی تگ و دو کی اور تحریکِ پاکستان میں کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے جو کچھ ان سے ہو سکا، انہوں نے کیا۔ مگر ان کی رودادِ حیات کا یہ حصہ شاید دوسرے مقالہ نگار قلمبند کر دیں گے، اس لیے اس باب میں، میں زیادہ کچھ نہیں لکھتا۔ |