Maktaba Wahhabi

51 - 458
غفران مآب غزنوی صاحب رحمہ اللہ کی اس سرگزشت میں اپنے حالات و واقعات کا پیوند لگانا مجھے اچھا نہیں لگتا ۔۔ اس لیے میں ان سے اپنے تعلقات کا تذکرہ نہیں کرتا، البتہ اتنا بیان کر دینے میں کچھ مضائقہ نہیں کہ ان کی خوش اخلاقی، عارفانہ تواضع اور عالمانہ متانت، اور علمی بحث و نظر کے دلنشیں انداز اور فکر انگیز اسلوب سے وہ لوگ بھی متاثر ہو جاتے تھے جن پر تاثیر کی کبھی توقع نہ ہو سکتی تھی۔ حسرت ہی کا ایک شعر پھر ان کے بارے میں لکھتا ہوں: ؎ شوق کی ایک نظر میں ہوئے وہ سب کامل جن پہ صدیوں نہ ہوئی صدق وفا کی تاثیر کچھ آخر میں پاکستان کے رنگِ سیاست سے اندر اندر بیزار اور مایوس نظر آتے تھے، مگر کھل کر کچھ نہ کہتے تھے۔ مجھ سے ایک مرتبہ فرمایا کہ حالت دگرگوں ہے۔ میں نے پوچھا: کیسے؟ فرمایا: توقع پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ میں نے کہا: کیونکر؟ فرمایا: اسلام کسی کے مدنظر نہیں۔ قائدِاعظم رحمہ اللہ سے کھلی بے وفائی ہو رہی ہے۔ لیکن ہمارا فریضہ اب بھی خیرخواہی ہے ہم پاکستان کے لیے دعا کرتے ہیں۔ اس کے بعد آخر وقت تک پاکستان کے دعاگو رہے، مگر زیادہ وقت اپنے دینی مدرسہ علوم کی تنظیم اور طلبہ کی تدریس و تعلیم میں گزارنے لگے۔ آخری مرتبہ جب ان سے ملا تو بیمار تھے، تاہم لہجے میں وثوق تھا۔ مجھ سے فرمایا: ’’دین ہی حسن المآب ہے۔ ہم جیسے لوگوں کو پھر دین کی نشر و اشاعت میں لگ جانا چاہیے کیونکہ مجھے پاکستان کے افق پر الحاد و کفر کی آندھیاں اُٹھتی نظر آتی ہیں۔ محنت کچھ رائیگاں ہوتی نظر آتی ہے۔ دین اور اہل دین رسوا ہونے والے ہیں۔ ہاں رحمتِ خداوندی کا سہارا ہے۔ لہٰذا اسی پر توکل اور اسی پر اعتماد ہے۔‘‘ اس روز کے بعد میں ان سے نہ مل سکا اور وہ اسی اثناء میں واصل باللہ ہو گئے۔ صرف جنازے میں ان کے تابوت سے سرسری سی ملاقات ہوئی، مگر اشکبار آنکھوں سے، ان کی پُر جلال تصویر اب تک آنکھوں کے سامنے ہے۔ خدا تعالیٰ انہیں مغفرت فرمائے اور ہم سب پر اپنا کرم کرے۔
Flag Counter