ذکر بزرگوں کے ساتھ نہیں کرتا، مگر ان کے بزرگ خود کہا کرتے تھے کہ یہ لڑکا، ہمارے بعد ہمارے پلیٹ فارم کو چمکائے گا اور بعد میں واقعی اس نے چمکایا۔ مولانا عبدالقادر قصوری، اس سارے گروہ کے جدِ امجد تھے۔ ثقہ، متین، مدبر، پُرسکون۔ ہمہ صفت موصوف تقریر بھی اچھی کرتے تھے، مگر وہ مدبرانہ ہی ہوتی تھی، اسے خطیبانہ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ مقابلہ میں اس لیے کر رہا ہوں کہ ایک ایسے گروہ میں جس کا ہر فرد، کسی نہ کسی طور سحبان بن وائل تھا، حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ فصحاء و زعماء کے اس ہجوم میں بھی ایک امتیاز، ایک انفرادیت رکھتے تھے۔ جس کی ایک وجہ، ان کے خاندان کی مجاہدانہ تاریخ بھی تھی اور ان کی ذاتی فضیلتِ علمی اس پر مستزاد تھی۔ اس مضمون میں غزنوی خاندان کی سابقہ کہانی شاید بے محل ہو گی، مگر اتنا تو سب جانتے ہیں کہ حضرت مولانا عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ اپنے عقائد اور تمسک بالسنۃ کے بارے میں استقامت کی سزا کے طور پر، اپنے وطن سے ہجرت پر مجبور کر دیے گئے۔ وہ اپنے خاندان سمیت پنجاب میں آ گئے اور افراد خاندان نے امرتسر اور لاہور میں قیام کیا اور ردِ بدعت اور اثبات سنت میں منہمک ہو گئے۔ دعوت و عزیمت کی یہ روایت خاندان میں مسلسل جاری رہی، چنانچہ آج تک (فاضلِ عزیز سید ابوبکر غزنوی کی صورت میں) جاری ہے۔ خاندان کے بزرگوں نے جو کچھ کیا وہ ایک الگ داستان ہے۔ حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے تحریکِ خلافت اور اس کے بعد آزادی وطن اور قیامِ پاکستان تک تمام تحریکوں میں اس روایت کو سرسبز رکھا۔ بارہا قید ہوئے، نظربند ہوئے، مصائب برداشت کیے، مگر جس راستے کو اسلام اور مسلمانوں کے لیے مفید خیال کیا، اس پر قائم رہے۔ مجلسِ خلافت پنجاب کے انقراض کے بعد، تحریک احرار میں شامل ہو گئے، اس کے بعد کانگریس کمیٹی پنجاب کے صدر مقرر ہوئے اور آزادی ہند کی تحریک کے اس نازک مرحلے میں یہ ثابت کرنے کے لیے کہ مسلمان آزادی وطن کے جہاد میں کسی دوسری قوم سے پیچھے نہیں، اُنہوں |