آتے تھے اور چونکہ میں خود بھی خادمِ خلافت تھا، اس لیے مجلس خلافت کے جلسوں میں تقریریں سننے کے لیے جایا کرتا تھا۔ مجھے مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی تقریر بہت اچھی لگتی تھی۔ مولانا کا اندازِ خطابت منفرد تھا۔ صاحب عقد الفرید نے لکھا ہے اعلیٰ خطابت کے لیے چار چیزیں لازمی ہیں۔ خطیب کی وجاہت، خطیب کی فصاحت و بلاغت، خطیب کی گونج دار آواز اور خطیب کی مجمع شناسی اور وسائلِ اثر آفرینی۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی خطابت میں یہ چاروں اوصاف موجود تھے۔ تحریکِ خلافت و احرار کا ایک بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اُس نے بڑے بڑے خطیب پیدا کیے۔ اس میں اکابر تو کیا عام کارکن بھی، خطیبانہ اوصاف کے مالک تھے، مولانا ابو الکلام، علی برادران، ڈاکٹر انصاری، حکیم اجمل خان، مولانا ظفر علی خان تو خلافت سے قبل ہی روشناسِ خلق ہو چکے تھے، اب ان کے مقابلے میں نسبتاً جوان اور نوجوان خطیب چمکے۔ ان میں حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی خطابت کا تذکرہ تو صدیوں کے پیمانے سے ناپا جا سکتا ہے، مگر ان کے رفقاء میں مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی، مولانا مظہر علی اظہر، خواجہ عبدالرحمٰن غازی، قاضی احسان احمد شجاع آبادی، صاحبزادہ فیض الحسن اور بالکل نوجوانوں میں شورش کاشمیری اور نوابزادہ نصر اللہ خان اور ان کے ساتھ مگر ان سے افضل حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ بھی تھے۔ میں نے انہیں افضل خطیب اس لیے کہا ہے کہ ان میں خطابت کے مذکورہ بالا چاروں اوصاف پائے جاتے تھے۔ باقیوں میں ایک آدھ وصف کی کمی نظر آتی تھی۔ اگرچہ ان میں سے ہر ایک گوہرِ آبدار تھا مگر غزنوی صاحب رحمہ اللہ کی سی مکمل خطابت ان میں سے کسی کو میسر نہ تھی۔ ایک بلند قامت وجیہ شخص، اپنی گونج دار آواز کے ساتھ، فقروں کے زیر و بم میں، عالمانہ رعب و داب کے ساتھ جب محوِ تکلم ہوتا تھا تو شاعرانہ محاورے کے مطابق عنادل بھی ٹھٹک کر رہ جاتی تھیں۔ اس گروہ میں چوہدری افضل حق سب سے کم درجے کے خطیب تھے، مگر جماعت کا دماغ وہی تھے۔ شورش کاشمیری کم عمری میں اس قافلے میں شامل ہوئے۔ اس لیے ادباً میں ان کا |