علیہ الرحمہ کے زمانے میں دارالعلوم ازسرِنو وجود میں آیا۔حضرت والد علیہ الرحمہ قومی اور جماعتی کاموں میں اس قدر منہمک تھے کہ وہ اپنے ذاتی مدرسہ پر زیادہ توجہ نہ فرما سکے۔ یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ دارالعلوم پر توجہ مرکوز فرماتے تو اسے ایک عظیم الشان یونیورسٹی میں تبدیل کر سکتے تھے۔ 16 دسمبر 1963ء کو دارالعلوم حضرت والد علیہ الرحمہ کی نگرانی اور سرپرستی سے محروم ہوا۔ حضرت والد علیہ الرحمہ کے بعد حضرت والد علیہ الرحمہ کے بعد دارالعلوم کو چلانے کی ذمہ داری اس بندہ عاجز کو سونپی گئی۔ راقم الحروف اپنی بے بضاعتی اور کم مائیگی کی وجہ سے حضرت عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ اور حضرت الامام عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ کی مسند پر بیٹھنے کا اپنے آپ کو کسی طرح بھی اہل نہیں سمجھتا تھا لیکن اس بات کے پیش نظر کہ بزرگوں نے کتاب و سنت کا جو فیضان جاری کیا ہے اور مدتوں سے جاری ہے کہیں بند نہ ہو جائے، اس ذمہ داری کو قبول کر لیا۔ فتشبهُوا ان لم تكونوا مثلهم اِنَّ التشبهَ بالكرام كرام ’’اگر تم ان جیسے نہ ہو سکو، تو اُن کا روپ ہی دھارو۔ بزرگوں کا روپ دھارنا بھی ایک سعادت اور شرف کی بات ہے۔‘‘ یہ خطاکار آس لگائے بیٹھا ہے کہ رحمتِ خداوندی نقل کو اصل میں تبدیل کر دے۔ خطبہ جمعہ تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ اس سے پیشتر دارالعلوم میں خطبہ جمعہ کا انتظام نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق بندہ عاجز کو مرحمت فرمائی۔ لاہور شہر اور آس پاس کے علاقوں سے اچھی خاصی تعداد میں لوگ جمعہ میں شریک ہوتے ہیں۔ مکتبہ غزنویہ معاشرے کے افراد کی ذہنی اور روحانی پرورش کے لیے |