دارالعلوم کے دو مدرس مولانا عبداللہ صاحب بھوجیانی رحمہ اللہ اور اُن کے بھائی مولوی عبدالرحیم شہید کر دیے گئے اور دفتر دارالعلوم کے نہایت وفادار کلرک مولوی عبداللہ صاحب دنیا نگری اور اُن کی بیوی کو مکان کے اندر شہید کر کے سارے دفتر کو آگ لگا دی گئی اور ان شہداء کی لاشیں اس میں خاکستر کر دی گئیں۔ إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ ہمارے پرانے اور مخلص سفیر مولوی صدر الدین صاحب راستہ میں شہید کر دیے گئے۔ دوسرے سفیر مولوی علم الدین صاحب راستہ کی صعوبتیں برداشت کرتے اس قدر ضعیف ہو گئے کہ لاہور پہنچنے کے بعد وفات پا گئے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام شہداء کی پاک روحوں کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان پر اپنے انوار و برکات نازل فرمائے۔ آمین (1) لاہور میں دارالعلوم کا دوبارہ اجراء پاکستان کے قیام اور امرتسر سے مسلمانوں کے جبری اخراج کے بعد اس دارالعلوم کے دوبارہ اجراء کا مسئلہ بہت پریشان کن تھا، لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور حضرت والد علیہ الرحمۃ کی مساعیِ جمیلہ سے دارالعلوم کو ’’شیش محل روڈ‘‘ کی موجودہ عمارت میسر آ گئی، لیکن اس وقت درس و تدریس کے آغاز کے لیے ایک کتاب بھی موجود نہ تھی۔ توفیقِ الٰہی شامل حال ہوئی اور شروع میں صرف درسی کتابیں خریدی گئیں، لیکن بتدریج تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، تصوف اور دوسرے علوم و فنون پر تمام اہم اور مستند کتابیں خریدنے کی توفیق ہوئی اور یوں تھوڑے ہی عرصے میں اس دارالعلوم کا کتب خانہ پھر علمی ذخائر سے مالامال ہونے لگا۔ ہمارے دینی مدارس میں عام طور پر جماعت بندی کا خیال نہیں کیا جاتا تھا اور نصابِ تعلیم پر جمود طاری تھا۔ حضرت والد علیہ الرحمۃ نے جماعت بندی، اصلاحِ نصاب، عرصہ تعلیم کا تعین ایسے اہم امور پر توجہ فرمائی۔ قرآن، حدیث اور فقہ کے علاوہ صرف و نحو، منطق و فلسفہ اور بلاغت و ادب کے نصاب میں ضروری تبدیلیاں عمل میں لائی گئیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ حضرت والد |