رقمطراز ہیں: ’’اگرچہ ہندوستان کی تقسیم مسلم لیگ اور کانگرس کے باہمی سمجھوتے سے ہوئی اور دوسرے لفظوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی نمائندہ جماعتوں کی رضا مندی سے ہوئی، لیکن اس تقسیم کے بعد مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کا جبری اخراج، مسلمانوں کا قتلِ عام، مسلم خواتین کی بے حرمتی، مسلمانوں کے مال و متاع کی تباہی و بربادی، مسلمانوں کی مساجد اور مدارس کا تاخت و تاراج کرنا، راشٹریہ سیوک سنگھ، سکھوں اور کانگریسوں کی باہمی سازش کا نتیجہ کے طور پر اس وحشت اور بربریت کے ساتھ عمل میں آیا کہ قرونِ مظلمہ کی تاریخ میں بڑے سے بڑے جلاد و سفاک اور درندہ خصلت حکمرانوں یا فاتحوں کی تاریخ میں بھی اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ مشرقی پنجاب میں امرتسر اس ہولناک بربریت اور سفاکی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ ہماری تاریخی مسجد ’’مسجدِ غزنویہ‘‘ بھی جلا دی گئی۔ مسجد غزنویہ کے ساتھ مدرسین کی رہائش کے مکانات بھی جلا دیے گئے۔ دارالعلوم کی تاریخی لائبریری جو بڑی نادر اور بیش قیمت کتابوں پر مشتمل تھی، برباد کر دی گئی۔ بزرگوں کے وقت سے اس لائبریری میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس عاجز نے مصر اور ہندوستان کے بڑے بڑے کتب خانوں سے جدید مطبوعات کا ایک بہت بڑا ذخیرہ اس میں شامل کیا تھا۔ قرآن مجید کی تمام تفاسیر، کتبِ احادیث اور اُن کی شرح، کتب فقہ، ائمہ اربعہ رحمہ اللہ اور اُن کے بڑے بڑے مجموعے۔ فتاویٰ، ادب اور تاریخ غرض تمام علوم کی بہترین کتابوں کا بڑا ذخیرہ تھا اور تمام درسی کتابوں کے ایک ایک کے بیسیوں بلکہ پچاسوں نسخوں کی کئی الماریاں بھری پڑی تھیں، جو آج ہزاروں روپے خرچ کرنے پر بھی نہیں مل سکتیں۔ افسوس کہ سکھوں اور ہندوؤں کی اسلام دشمنی بلکہ مسلم دشمنی کی وجہ سے وہ ذخیرہ برباد ہو گیا۔ إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ ہمیں اپنے مکانات کی تباہی و بربادی کا اتنا صدمہ نہیں جتنا اپنے کتب خانہ کے ضائع ہونے کا صدمہ ہے کیونکہ وہ اب کسی قیمت پر بھی نہیں مل سکتا۔ اس تباہی و بربادی کے علاوہ جو سب سے بڑا نقصان ہمیں پہنچا، وہ یہ کہ ہمارے |