Maktaba Wahhabi

453 - 458
پس تو ہی میری عاجزانہ التجاؤں کا سننے والا اور انہیں شرف قبولیت بخشنے والا اور مجھے توفیق بخشنے والا ہے کہ تیری توفیق کے بغیر میرے لیے ناممکن ہے کہ میں اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہو سکوں۔ [1] حضرت والد علیہ الرحمہ اعلائے کلمۃ الحق کی پاداش میں کئی بار نظربند ہوئے مگر اُن کے عزم اور ہمت کا عالم یہ تھا کہ وہ قید و بند کی سختیاں بھی جھیلتے رہے اور دارالعلوم بھی چلاتے رہے۔ خود رقمطراز ہیں: ’’اس دَور میں دارالعلوم کے لیے وقت بڑا نازک تھا جب کہ انگریزی حکومت نے مجھے گزشتہ عالمگیر جنگ کے زمانہ میں نظربند کر دیا اور تین سال کی نظربندی کے عرصہ میں مجھے دارالعلوم کی نگرانی سے مجبوراً محروم ہونا پڑا۔‘‘ [2] قید سے رہا ہوتے ہی ایک نئے ولوے کے ساتھ دین کے کاموں میں منہمک ہو جاتے۔ خود فرماتے ہیں: ’’اس نظربندی سے خلاصی حاصل کر لینے کے بعد یہ فکر دامنگیر ہوئی کہ دارالعلوم کی ایک نئی عمارت بنائی جائے جو تمام ضروریات کے لیے کفیل ہو، چنانچہ تیس ہزار روپے کے صرف سے تین منزلہ خوبصورت عمارت، مسجد غزنویہ کے ساتھ ہی تعمیر کی گئی۔ خوبصورتی کے علاوہ اس کی پختگی اور مضبوطی کا خیال اس درجہ رکھا گیا کہ اس کی چھتیں لوہے، سیمنٹ اور کنکریٹ سے تیار کی گئیں اور تمام عمارت سیمنٹ سے تیار کی گئی، لیکن افسوس کہ ہم تین چار ماہ سے زیادہ عرصہ دارالعلوم کی اس نئی بلڈنگ میں نہ رہنے پائے کہ 1947ء کا انقلاب اپنے تمام فتنوں اور بربادیوں سمیت آ گیا۔‘‘ [3] دارالعلوم اور 1947ء کا خونیں انقلاب 1947ء کے خونیں انقلاب میں دارالعلوم پر کیا گزری؟ حضرت والد علیہ الرحمہ یوں
Flag Counter