سے گزر کر پورے ہندوستان بلکہ بلاد عرب تک جا پہنچے اور اِس طرح آپ کے شاگرد تمام ملک بلکہ بیرونی ممالک میں بھی پھیل گئے۔ آپ نے اپنے عہد مبارک میں مسجد غزنویہ کی درسگاہ کو باقاعدہ دارالعلوم کی شکل میں تبدیل کر دیا اور اس کے لیے ایک نظام قائم کر دیا۔ حضرت امام صاحب علیہ الرحمہ نے اپنی فراستِ ایمانی اور بصیرتِ قلبی کی برکت سے وقت کی اہم ترین ضرورت کو محسوس کیا۔ علومِ کتاب و سنت اور دیگر علومِ دینیہ کی تعلیم کے لیے ’’دارالعلوم تقویۃ الاسلام‘‘ کے نام سے ایک ایسی درس گاہ قائم کی جو پنجاب میں علمی اور روحانی فیوض کے لحاظ سے عدیم النظیر اور بے مثال تھی۔ دارالعلوم کی بنیاد کچھ ایسے مبارک وقت اور ایسے اخلاص اور حسنِ نیت کے ساتھ رکھی گئی کہ بہت جلد اس کو ﴿فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا﴾ کا درجہ حاصل ہو گیا۔ بہت کم عرصہ میں حضرت امام صاحب علیہ الرحمہ کے شاگرد دارالعلوم کے فارغ التحصیل طلباء ملک کی مساجد میں دعوت و ارشاد کا فرض بجا لاتے ہوئے محراب و منبر کی زینت کا باعث ہوئے اور پنجاب کے اکثر دینی مدارس میں مدرسی کے فرائض بجا لانے لگے۔ ان کی برکت سے شہروں سے گزر کر دور دراز قصبات و دیہات میں قال اللہ و قال الرسول کے غلغلے بلند ہوئے۔ جہل کی تاریکیوں کی جگہ علم و بصیرت کے چراغ روشن ہو گئے۔ غرض علم و معرفت کا یہ شجر طیبہ ’’دارالعلوم تقویۃ الاسلام‘‘ جس کی تخم ریزی 1902ء میں حضرت الامام علیہ الرحمۃ کے دستِ مبارک سے ہوئی ایسا سرسبز اور بار آور ہوا کہ ﴿أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ ﴿٢٤﴾تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا﴾ اس کے گل و اثمار ہزاروں لاکھوں مومنین کے قلوب و ارواح کے لیے حیات بخش ثابت ہوئے۔ والد بزرگوار حضرت امام صاحب علیہ الرحمۃ کے دور یمن و برکت کے بعد ان کے بھائی حضرت مولانا عبدالواحد صاحب غزنوی نور اللہ مرقدہ، جنہیں اللہ تعالیٰ نے فصلِ خطاب و حسن بیان اور فہم قرآن میں حظِ وافر عطا کیا تھا، مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے اور زمامِ اہتمامِ |