مدرسہ غزنویہ کی تاریخی حیثیت اب مدرسہ غزنویہ کے متعلق کچھ مختصر سی معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ اندازہ کر سکیں کہ اس درسگاہ نے کیا کیا دینی خدمات سرانجام دیں اور اس کے فیض کا سلسلہ کہاں تک پھیلا اور آج اس کی کیا ضرورت ہے اور اس سے کیا توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ ہمارے جدِ امجد امام اہل التوحید، متبع آثار السلف الصالحین عارف باللہ حضرت مولانا عبداللہ غزنوی قدس سرہ جب غزنی سے پنجاب تشریف لائے اور امرتسر میں سکونت پذیر ہوئے، توحید و سنت کی اشاعت اور بدعات اور مشرکانہ رسوم سے پاک اسلام کی تبلیغ کا بے پناہ جذبہ جو آپ کے دل میں موجزن تھا، اس نے چند دنوں میں ایسی صورت حال پیدا کر دی کہ امرتسر مرجعِ عوام و خواص بن گیا۔ آپ کے حلقہ پند و نصائح میں شریک ہونے، آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے اور کیفیتِ خشوع و خضوع حاصل کرنے اور آپ کے فیضانِ صحبت سے مستفیض ہونے کے لیے صلحاء و علماء دور دور سے حاضر ہو کر اس چشمہ ہدایت و معرفت سے اپنی روح کی تسکین اور قلب کی تطہیر حاصل کرتے۔ آپ کے صاحبزادگان میں سے مولانا عبداللہ رحمہ اللہ، مولانا محمد رحمہ اللہ اور والد بزرگوار حضرت مولانا عبدالجبار صاحب غزنوی رحمہ اللہ قرآن و حدیث کا درس دیتے۔ اس طرح مسجد غزنویہ ایسی تربیت گاہ بن گئی تھی جہاں علم کے ساتھ عمل، قال کے ساتھ حال کی کیفیت اور علم و بصیرت کے ساتھ معرفت کا نور حاصل ہوتا تھا۔ عارف باللہ حضرت مولانا عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ قدس سرہ کے واصل بحق ہونے کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا عبداللہ بن عبداللہ رحمہ اللہ اُن کے خلیفہ مقرر ہوئے۔ آپ تھوڑا عرصہ زندہ رہے۔ ان کی وفات کے بعد والد بزرگوار حضرت مولانا عبدالجبار غزنوی نور اللہ مرقدہ منصبِ خلافت و امامت پر فائز ہوئے۔ آپ کے عہد مبارک میں روحانی فیوض و برکات حاصل کرنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہو گیا اور آپ کے علم و فضل کے چرچے پنجاب |