میں زندہ رہے، شعائرِ اسلامی کا احترام اور مذہب کا اقتدار مسلمانوں کے دلوں پر قائم رہے، تو مسلمانوں کو ان مذہبی مدارس کے قیام و بقا اور تحفظ کے لیے پہلے سے زیادہ توجہ منعطف کرنی چاہیے۔ میرے نزدیک ان عربی دینی مدارس کی جس قدر ضرورت کل تھی، آج اُس سے بھی زیادہ ہے۔ کل کی طرح لوگ آج بھی عہدوں اور ملازمتوں کے پھیر اور اربابِ اقتدار کی چاپلوسی میں لگے ہوئے ہیں۔ انگریزی تعلیم گاہوں اور تربیت گاہوں سے نکلے ہوئے لوگ مذہب کی پابندیوں کے قبول کرنے سے آج بھی اسی طرح گھبراتے ہیں، جس طرح کل گھبراتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ، اس لیے ان عربی دینی مدارس کو سنبھالنا اور عمدگی سے چلانا وقت کا اہم ترین فریضہ ہے۔ اگر یہ دینی مراکز اور علوم دینیہ کے سرچشمے خشک ہو گئے تو ہماری اسمبلیوں، ڈسٹرکٹ بورڈوں اور میونسپلٹیوں سے کوئی توقع نہیں رکھ سکتا کہ وہ اسلامی تہذیب و تمدن کی حفاظت کریں گی اور نہ ہمارے لیڈروں سے جو خود انگریزی تہذیب و تمدن کے پروردہ اور مذہب سے ناآشنا اور دینی زندگی سے محروم ہیں، توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اسلامی تہذیب و تمدن کی حفاظت کر سکیں گے یا قرآن و حدیث، فقہ اسلامی اور دیگر علومِ اسلامیہ کے درس و تدریس اور اشاعت کے لیے وہ توجہ منعطف کر سکیں گے۔ مسلمانوں کا طبقہ جو چاہتا ہے کہ مسلمانوں کی زندگی پر مذہب حاوی ہو، مذہب کا اقتدار ہو اور مسلمان مذہب کے رنگ میں رنگے ہوئے ہوں، جو چاہتا ہے کہ قراردادِ مقاصد کے مطابق مسلمانوں کی زندگی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہو، جو چاہتا ہے کہ اس ملک میں خدا کی حاکمیت کے اقرار کے ساتھ خدا کا قانون اس ملک میں نافذ ہو، اُسے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور درس و تدریس کے لیے ایسے مدارس قائم کرنے چاہئیں، یا جو موجود ہیں، اُن کے بقاء و استحکام کے لیے اپنی بہترین توجہات منعطف کرنی چاہئیں تاکہ جید علماء دین تیار ہوں اور وہ مذہبی انقلاب پیدا کیا جا سکے جس کی ضرورت باوجود سیاسی انقلاب کے ظہور پذیر ہو جانے کے ابھی تک باقی ہے۔ |