تو ہو مگر زندگی کی طاقت نہ ہو۔ یہ کلکتہ، الٰہ آباد، دہلی اور لاہور کے مشرقی زبانوں کے کالج اسی خیال کے مظہر ہیں، حالانکہ دین کے بغیر عربی تعلیم کا درجہ اس عربیتِ جاہلیت سے کم نہیں جس کے مٹانے کے لیے اسلام آیا۔ اے کاش! مسلمان یہ سمجھ سکتے کہ عربی تعلیم صرف عربی تعلیم کے لیے نہ ہماری قومی زندگی کا مقصد ہو سکتا ہے، نہ ہماری مذہبی زندگی کا تقاضا ہے، نہ اس کے لیے ہماری محنت اور دولت کچھ نفع بخش ہے۔ بلکہ جو حقیقت نفس الامری ہے، وہ یہ ہے کہ ہماری زندگی کا مدار جس صحیفہ الٰہی پر ہے اور ہمارے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و سیرت اور آپ کے اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ارشاداتِ گرامی جس زبان کے خزانہ میں محفوظ ہیں، وہ یہی مقدس زبان ہے، اس لیے اس زبان کے جاننے اور اس میں مہارت پیدا کیے بغیر خدا اور اس کے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح منشا سے واقف نہیں ہو سکتے اور نہ اس فیض سے فیضیاب ہو سکتے ہیں جو اس زبان کے سرچشمہ سے بہہ رہا ہے، اس لیے اس زبان کو جاننا، اس میں مہارت پیدا کرنا اور اس کے الفاظ کی تحقیق، محاوروں کی تفتیش اور طرز و اسلوبِ کلام کی واقفیت فرض کفایہ کی حیثیت سے مسلمانوں پر واجب ہے اور اسی مقصد کے لیے ملک کے مختلف گوشوں میں عربی دینی مدارس کا قیام ضروری ہے۔ اگر آپ غور سے ان تحریکوں کا مطالعہ کریں گے جن سے اس ملک میں الحاد کو تقویت حاصل ہوئی اور افرنجی مقاصد کو فروغ ہوا، تو آپ اسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ انکارِ حدیث اور تفسیر بالرائے کا فتنہ، الحاد کے سارے فتنے، ان سب کا سرچشمہ صرف عربی تعلیم یا عربی زبان کی وہ واقفیت ہے جس میں علوم کتاب و سنت اور مذہبی تعلیم و تربیت کا عنصر شامل نہیں ہے۔ آج دینی درسگاہوں کی اشد ضرورت ہے اس لیے صاف طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی تہذیب صحیح معنوں |