Maktaba Wahhabi

447 - 458
سے یہ سمجھ لیا تھا کہ اگر خطرہ کا انسداد نہ کیا گیا اور اِس فتنہ کے مقابلے کے لیے اسلامی علوم و فنون کے قلعے نہ بنا لیے گئے تو حملہ آور غنیم ہمارے تاج و تخت کے ساتھ ہی ساتھ ہمارے علوم و فنون ہماری تہذیب و تمدن، ہمارے مذہب غرض ہر وہ چیز جس سے ہماری قومیت اور مذہبی روایات زندہ رہ سکتی ہیں، سب کو غارت کر دے گا۔ اس خیال کے آتے ہی ان علمائے حق نے جن کو حق جل مجدہٗ نے اس خدمت کے لیے منتخب فرمایا تھا، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر بھروسہ کرتے ہوئے عربی مدارس کی بنیاد ڈالی۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ دہلی کی درسگاہ جسے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمہ اللہ نے جاری رکھا اور اُن کے بعد حضرت شاہ اسحٰق صاحب رحمہ اللہ نے آباد کیا۔ دہلی کے 1857ء کے حادثہ کی نذر ہو گئی، لیکن حضرت مولانا سید نذیر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دہلی میں اس درسگاہ کو جاری کیا۔ امرتسر کی مشہور درسگاہ مدرسہ غزنویہ اسی شجرِ طیبہ کی شاخِ ثمردار ہے۔ اسی زمانہ میں ملک کے دوسرے اہم حصوں میں دینی علوم کے لیے حضرات اہل علم نے درسگاہیں قائم کیں۔ عربی دینی مدارس کے اثر کو زائل کرنے کی کوشش قرآن و حدیث کے درس و تدریس کے یہ سلسلے، قال اللہ قال الرسول کے یہ غلغلے علمائے حق کے مواعظِ حسنہ کی مجلسیں، تبلیغِ اسلام کی یہ سرگرمیاں، انگریزی حکومت کے لیے کیونکر قابلِ برداشت ہو سکتی تھیں۔ انگریزی حکومت کو یقین تھا کہ ہندوستان میں انگریزی حکومت کے خلاف جو عظیم الشان طاقت اُٹھ کھڑی ہوئی تھی، وہ دراصل علماء کی مذہبی تحریک کا نتیجہ تھی، اس لیے اُس نے عربی دینی مدارس کے اثر کو زائل کرنے اور اس کے حلقہ اقتدار کو ختم کرنے کے لیے یہ چال چلی کہ عربی تعلیم کے ایسے کالج اور مدرسے بنائے جائیں جن میں عربی زبان اور عربی ادب کی تعلیم دی جائے، مگر اس میں اسلامی روح نہ ہو تاکہ اس روح سے خالی ہو کر عربی تعلیم کی ایسی لاشیں تیار ہوں جن میں ظاہری حسن و جمال
Flag Counter