Maktaba Wahhabi

43 - 458
دعوت دی جائے مثلاً فکرونظر کا یہ پیمانہ جسے ہم مسلکِ اہلحدیث سے تعبیر کرتے ہیں، ایک طرف تو اس بات کا مقتضی ہے کہ ہمارا تعلق پورے اسلام سے ہو، کتاب و سنت کے بیان کردہ مکمل نظامِ حیات سے ہو جس میں عقائد سے لے کر عبادات اور عبادات سے لے کر معاملات و اخلاق تک ہر ہر شے داخل ہو، اس شرط کے ساتھ کہ ہم اس نظامِ حیات کو براہِ راست کتاب اللہ، سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف کی تصریحات سے اخذ کریں۔ ظاہر ہے کہ یہ نقطہ نظر کسی درجے میں بھی جزوی اسلام کا قائل نہیں اور فرقہ وارانہ تعصبات کا حامی نہیں بلکہ ایک طرح کی کلیت اور وسعت و جامعیت اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے، لیکن ہمارا یہ حال ہے کہ ہم بہت بحث و مناظرہ کی وجہ سے مسائل کی ان چند گنی چنی دیواروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں جن کو گروہی عصبیت اور تنگ نظری نے پیدا کیا ہے۔ چنانچہ آج اہل حدیث کے معنی ایسے گروہ کے نہیں کہ جن کی نظر اسلام کے پورے حکیمانہ نظام پر ہو، جن کے عمل سے اسلام کی تمام اخلاقی، اجتماعی اور روحانی قدروں کا خصوصیت سے اظہار ہوتا ہو اور جو روز مرہ کی عام زندگی میں ہر ہر قدم پر کتاب و سنت کی تصریحات کے متلاشی ہوں۔ آج اہل حدیث کے معنی اس کے برعکس ایک ایسے شخص یا جماعت کے ہیں جن کی دلچسپیوں کا محور عموماً صرف چند مسائل، چند بحثیں اور چند فرسودہ مناظرانہ کاوشیں ہیں۔ دوسرا تضاد جس کو مولانا مرحوم تصور اہل حدیث کے بارے میں شدت سے محسوس کرتے تھے، وہ اس دیرینہ تغافل سے عبارت ہے جس کو ہم نے عدم تقلید کے سلسلہ میں روا رکھا ہے۔ عدم تقلید سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ ہمیں مسائل کے اخذ و قبول میں کسی فقہی مدرسہ فکر کی پابندی نہیں کرنا چاہیے۔ عدم تقلید کا یہ مفہوم محض سلبی نوعیت کا ہے جس سے کسی تہذیبی خاکے کی تعمیر نہیں ہوتی۔ عدم تقلید کے ایجابی اور تہذیب آفریں معنی یہ ہیں کہ جہاں ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم وقت و زماں کے فاصلوں کو پھلانگ کر سمع و اطاعت کی ایک ہی جست میں اس پاکیزہ ماحول میں پہنچ جائیں جہاں لسانِ نبوت اور نطقِ پیغمبر براہِ راست زمزمہ پیرا
Flag Counter