Maktaba Wahhabi

42 - 458
تو ہمیں چاہیے کہ بلا لومۃ لائم ہم جہاں نوے فیصد مسائل میں حکومت کی مخالفت کریں وہاں دس فیصد صحیح اقدامات پر اس کی تعریف بھی کریں۔ پاکستان بن جانے کے بعد مولانا مرحوم کی تمام تر توجہ جمعیت اہل حدیث کی تنظیم پر مرکوز رہی، نامناسب نہ ہو گا۔ اگر میں اس مرحلہ پر نظریہ اہل حدیث کے مخصوص ذہن و مزاج کے بارے میں ان تصورات کی چہرہ کشائی کا فریضہ انجام دوں جو اکثر خلوتوں میں ہمارے ہاں زیرِ بحث رہے۔ خلوتوں کے لفظ سے کسی قسم کی غلط فہمی کو نہیں اُبھرنا چاہیے۔ بات صرف یہ ہے کہ موت سے پہلے ادھر چند سالوں سے میرے ساتھ مرحوم کے تعلقات خاطر اور رسم و راہ کا یہ انداز قائم ہو گیا تھا کہ میں دوسرے تیسرے روز ضرور حاضری دیتا اور اگر میں کسی وجہ سے نہ آ پاتا، تو بلاوا آتا اور کبھی کبھی خراماں خراماں خود بھی میرے ہاں تشریف لے آتے۔ بہرحال ہم جب بھی ملتے، یہ اہتمام کیا جاتا کہ گفتگو اور بات چیت کے لیے مکمل یکسوئی حاصل ہو۔ اس کے بعد مشروبات کا دور چلتا۔ لطائف کا تبادلہ ہوتا اور خالص علمی مسائل پر بحث و تمحیص کے گوناگوں دریچوں پر دستک دی جاتی۔ اس میں صرف و نحو، ادب، تفسیر، علم الکلام، فقہ اور حدیث کے غوامض پر کھل کر اظہارِ خیال ہوتا اور اس اثناء میں یہ محسوس کر کے مجھے بے حد مسرت ہوتی کہ روایت و درایت کے فاصلے سمٹ رہے ہیں اور قدیم و جدید کا تضاد دور ہو رہا ہے۔ بارہا ایسا ہوا کہ مولانا نے اپنی دلآویز اور روایتی مسکراہٹ کے ساتھ نہ صرف میرے بعض تفردات فکری کی پُرزور تائید کی بلکہ اس کے لیے شواہد بھی مہیا کیے۔خلوت کے یہ لمحے علم و تحقیق کی خشک بحثوں سے گزر کر آخر تصوف، احوالِ آخرت اور قلب و روح کے جائزہ پر ختم ہو جاتے۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ اس اثناء میں ہم میں سے کس کی آنکھیں پہلے اشکبار ہوتیں، البتہ اتنا خوب یاد ہے کہ دونوں روتے اور دیر تک روتے رہتے۔ نظریہ اہل حدیث سے متعلق ان کے ذہن میں تضادات کا ایک واضح نقشہ تھا اور وہ بہ دل چاہتے تھے کہ اس سے مخلصی حاصل کرنے کی جدوجہد میں اہل حدیث علماء کو شرکت کی
Flag Counter