حدیث کے غوامض پر فکر و تحقیق ان کا خاص مشغلہ تھا۔ ان کی سیاسی سرگرمیاں اس دور کی مجبوری کا نتیجہ تھیں۔ اول اول میں جب اُن سے ملا تو ان کے بارہ میں میرا تاثر یہی تھا کہ میدانِ خطابت میں ان کی شعلہ افشانیاں مسلم، لیکن حدود مطالعہ کے اعتبار سے یہ دوسرے سیاسی لیڈروں سے کچھ زیادہ مختلف نہ ہوں گے، مگر یہ دیکھ کر مجھے حیرت انگیز تعجب ہوا کہ قرآن، حدیث اور فقہ میں یہ اُن تمام مقامات و رموز سے آگاہ ہیں جو فہم و ادراک کے لیے اچھی خاصی مجتہدانہ کاوشوں کے طالب ہیں۔ مجھے ان کی لائبریری کا جائزہ لینے کا بھی بارہا اتفاق ہوا۔ میں نے دیکھا کہ کوئی اہم کتاب ایسی نہیں اور کسی کتاب کا کوئی اہم باب ایسا نہیں جس پر اُن کے حواشی و تعلیقات کی چھاپ نہ ہو۔ خصوصیت سے فقہ و تفسیر کے مسائل پر اُن کی نظر بہت گہری تھی۔ یہی وجہ ہے جب وہ کسی استفتاء کا جواب دیتے تو زیرِ بحث مسئلہ پر اس طرح دلائل کا انبار لگا دیتے کہ اس کا کوئی گوشہ تشنہء تحقیق نہ رہتا۔ فتویٰ نویسی کا ذکر چھڑا ہے تو ان کی یہ خصوصیت سن رکھیئے جو بھلائے نہیں بھولتی کہ اس سلسلہ میں مرحوم صرف کتابوں کے فنون و نصوص سے استفادہ نہیں کرتے تھے بلکہ یہ بھی دیکھتے تھے کہ نفسِ مسئلہ کی معاملات کی رُو سے کیا اہمیت ہے اور اس بارے میں قانونِ فطرت یا عام سمجھ بوجھ کے تقاضے کیا ہیں۔ ژرف نگاہی کے پہلو بہ پہلو اُن میں روشن ضمیری بھی تھی۔ مجھے یاد ہے جب عائلی قوانین پر جمعیت اہل حدیث کی ایک مقرر کردہ سب کمیٹی میں بحث و تمحیص ہوئی، تو اُنہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہمارا نقطہ نظر یہ نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت کی طرف سے اصلاحات کے نام پر جو قدم بھی اٹھایا جاتا ہے وہ سرتاپا غلط ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ اس میں کون سے اقدامات صحیح ہیں اور کون سے غلط۔ مولانا مرحوم کا مؤقف اس سلسلہ میں یہ تھا کہ ہمیں ان مسائل پر سیاسی اور گروہی تعصبات سے بالا ہو کر خالص کتاب و سنت کی روشنی میں غور کرنا چاہیے۔ چنانچہ ان اصلاحات میں اگر دس فیصد بھی ہمارے نقطہ نظر کے مطابق صحیح چیزیں پائی جائیں |