Maktaba Wahhabi

40 - 458
اور ذہین انسان سیاست میں نہ الجھتا اور علم و عرفان کے اس زمزم سے تشنگانِ ادراک و فیض کی پیاس بجھانے کی کوشش کرتا جس کو حضرت عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت الامام عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے ذوق اخلاص و زہد نے بہ ہزار سعی و مجاہدہ جمع کیا تھا، تو اس کے نتائج کس درجہ شاندار ہوتے تو توحید و سنت کا غلغلہ کتنا بلند ہوتا۔ اشاعتِ سنت کا کام کتنی تیزی سے آگے بڑھتا اور عرفان و سلوک کے دبستان کس کس دلآویزی کے ساتھ مشامِ جاں کو متاثر کرتے۔ زمانہ کی تیز رفتاریاں بھلا کب فرصت عطا کرتی ہیں کہ اس نوع کی حرماں نصیبیوں کے اظہار پر اپنی توانائیوں کو ضائع کیا جائے۔ تلافی مافات کے لیے اب ہماری نظریں مولانا مرحوم کے جواں سال اور جواں فکر فرزند مولانا ابوبکر غزنوی پر گڑی ہیں کہ وہ اُٹھیں اور دعوت و ارشاد کے اس منصب کو سنبھالیں اور تواضع، انکسار اور محبت و تودو کی ان فراوانیوں کے ساتھ جو تصوف و احسان کا خاصہ ہیں، تبلیغ و اشاعت میں نکلیں اور لسان و قلم کی جنبشوں کو اُس اوجِ کمال تک پہنچائیں کہ جس تک پہنچانے کی توقع بجا طور پر ان کے علم و فضل سے کی جا سکتی ہے۔ صرف یہی ایک طریق ہے کہ جس سے تاریخ کی ان ستم ظریفیوں کا انتقام لیا جا سکتا ہے جن کی وجہ سے مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ شدید خواہش اور طلب کے باوصف اپنی بے نظیر علمی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے ایسے لمحوں اور ایسی فرصتوں سے بہرہ مند نہ ہو سکے جو ان کے فیوض کے دائروں کو وسیع تر کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتیں۔ اس دور کی سیاسی مصروفیتوں نے دراصل موصوف کی شخصیت کو اس درجہ گھیر رکھا تھا کہ انہیں کبھی بھی چین سے بیٹھ کر کام کرنے کا موقع ہی نہ ملا۔ میری رائے میں مولانا داؤد رحمہ اللہ اپنے ذوق و مطالعہ کے لحاظ سے کبھی بھی ان معنوں میں سیاسی آدمی نہیں تھے کہ علم اور طلب و تحقیق کے تقاضوں سے روگرداں ہو کر بس سیاست کے ہی ہور ہیں، بلکہ اس کے برعکس واقعہ یہ ہے کہ ان کو جب بھی فرصت ملتی یہ سب کام چھوڑ چھاڑ کر اپنی لائبریری میں گھس جاتے اور فرصت کے عزیز ترین لمحوں کو اپنے رفیقانِ ذوق کے ساتھ جی بہلانے میں صرف کرتے۔ کتب بینی، مطالعہ اور فقہ و
Flag Counter