Maktaba Wahhabi

39 - 458
مولانا مرحوم کی زندگی کے متعدد گوشے تھے۔ انہوں نے ایک زمانے میں جہاں مسندِ درس کو زینت بخشی تھی اور اپنی جچی تُلی تقریروں سے ایک نئے اسلوب کی طرح ڈالی تھی اور محراب و منبر سے کلمہ حق بلند کیا تھا اور وعظ و ارشاد سے دلوں کو گرمایا اور متاثر کیا تھا، وہاں انگریزی استعمار کے خلاف معرکہ آرائیوں میں شجاعانہ حصہ بھی لیا تھا۔ سیاسیات کے خار زار میں ایک نمایاں اور اُبھری ہوئی شخصیت کی حیثیت سے لائق صد فخر کردار بھی ادا کیا تھا۔ ’’توحید‘‘ کے نام سے آپ نے ایک بلند پایہ پرچہ بھی نکالا تھا، جس کی چند ہی اشاعتوں سے یہ توقع اور آرزو دلوں میں مچلنے لگی تھی کہ شاید اہل حدیث کی تاریخ میں کچھ نئے موڑ آنے کو ہیں اور علم و آگہی کے کچھ نئے ابواب کھلنے والے ہیں، مگر افسوس کہ توقع اور آرزو کی بے تابیاں پنپ نہ سکیں اور یہ آفتابِ تازہ جس کو اہل حدیث کے تنِ مردہ میں ایک روح پھونکنا تھی، چند ہی جھلکیوں کے بعد مغرب کے اتھاہ دھندلکوں میں غائب ہو کر رہ گیا۔ شاید اس دور کی سیاسی ضروریات نے اچھی طرح بھانپ لیا تھا کہ اس مردِ عظیم سے قلم و قرطاس کی آسودہ فکری کے بجائے رسن و دار اور طوقِ زنداں کی سختیوں کو جھیل لینے کا کام یقیناً زیادہ موزوں رہے گا۔ قضا و قدر کا یہ فیصلہ اپنی جگہ بالکل صحیح سہی۔ آپ نے جمعیت العلماء، خلافت، احرار اور لیگ کی تحریکات میں جو عظیم خدمات انجام دیں، بلاشبہ ان کو آنے والا مؤرخ سنہری حروف میں لکھنے پر مجبور ہو گا مگر اس خلش کا کوئی جواب بظاہر دل بے قرار سے بن نہیں پڑتا کہ اگر مولانا داؤد رحمہ اللہ جیسا طباع
Flag Counter