Maktaba Wahhabi

44 - 458
ہے، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اس پاکیزہ ماحول، ان قیمتی اقدار اور فکر و نظر کی اس وسیع تر فضا کو موجودہ حالات پر بھی منطبق کرنے کی سعی بلیغ کریں اور سوچنے کا انداز یوں قائم کریں کہ اگر آج اسلام نازل ہوتا ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے اور پوری انسانیت کو اپنا مخاطب قرار دیتے، تو اسلام کا تصور تابش وضوء کی کن کن صورتوں پر مشتمل ہوتا۔ مولانا اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ فرض اہل حدیث پر عائد ہوتا ہے کہ وہ کتاب و سنت کی روشنی میں مسائل زیر بحث پر مجتہدانہ غور کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ فقہاء متاخرین کے فیصلہ کے علی الرغم اجتہاد کے دروازے آج بھی کھلے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ایک عرصہ سے اہل حدیث اجتہاد کی اہمیت، ضرورت اور فوائد سے نا آشنا ہیں۔ تضاد کی تیسری صورت جس سے مولانا ازحد شاکی اور پریشان تھے، جماعت اہل حدیث کے مزاج کی موجودہ کیفیت ہے۔ مولانا کے نقطہ نظر سے اسلام چونکہ تعلق باللہ اور اس کے ان انعکاسات کا نام ہے جو معاشرہ اور فرد کی زندگی میں لطائف اخلاق کی تخلیق کرتے ہیں۔ اس لیے تحریک اہل حدیث کا اولین مقصد یہ ہونا چاہیے کہ جماعت میں محبت الٰہی کے جذبوں کو عام کرے۔ تعلق باللہ کی برکات کو پھیلائے اور اطاعت و زہد، اتقاء و خشیت اور ذکر و فکر کو رواج دے، لیکن ہماری محرومی و تیرہ بختی ملاحظہ ہو کہ عوام تو عوام، خواص تک تصوف و احسان کی ان لذتوں سے نا آشنا ہیں۔ حالانکہ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے کہ خواص تو خواص ہمارے عوام تک زہد و ورع کا بہترین نمونہ سمجھے جاتے تھے۔ آپ پوچھیں گے کہ مولانا مرحوم کے نزدیک ان تضادات سے چھٹکارا پانے کا طریق کیا تھا؟ بارہا یہ مسئلہ مولانا کے ہاں زیرِ بحث آیا۔ اُن کی اس سلسلہ میں جچی تلی رائے یہ تھی کہ ہمیں تعلیم و تربیت کے پورے نظام کو بدلنا چاہیے اور اس کو ایسی شکل دینا چاہیے کہ جو جماعت اہل حدیث کی تعمیرِ نو کے لیے زیادہ سازگار ثابت ہو سکے اور اس کے فکر و عقیدہ کو ایسی استوار بنیادوں پر قائم کر سکے کہ جن میں تضاد اور الجھاؤ کی خلل اندازیاں نہ پائی جائیں، جو ان میں زندگی کی نئی روح دوڑا سکے۔
Flag Counter