سہمے جاتے ہیں، ڈرے جاتے ہیں وہ عاشق سے کم سنی ہے ابھی، اس سن میں جھجک ہوتی ہے ۔۔۔ کسی کو دیکھ کے ساقی کے ایسے ہوش اڑے شراب سیخ پہ ڈالی، کباب شیشے میں ۔۔۔ مرے آہ و نالہ سے ڈر اے ستمگر دیارِ محبت کا ہوں انقلابی عمل جب نہیں، کچھ نہیں شیخ صاحب فضیلت پناہی، مشخت مآبی ۔۔۔ ملنے کا وعدہ منہ سے تو اُن کے نکل گیا پوچھی جگہ جو میں نے کہا ہنس کے خواب میں ۔۔۔ ہجوِ مَے کر رہا تھا منبر پر ہم جو پہنچے تو پی گیا زاہد ۔۔۔ چاہت کا مزا بعد ہمارے نہ ملے گا ہر شخص سے تم آپ کہو گے، ہمیں چاہو (داغ) ۔۔۔ نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں (غالب) ۔۔۔ نظر لگے نہ کہیں اس کے چشم و ابرو کو یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں بہ ترمیم بیگم مولانا محمد علی قصوری (بمبئی) ۔۔۔ بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے، ویسی سنے ۔۔۔ ہو عیب کی خویا کہ ہنر کی عادت مشکل سے بدلتی ہے بشر کی عادت |