یہ دو دو کام تو بس کے مرے نہیں زاہد کہ بت کدے میں رہوں طاعتِ خدا بھی کروں(میکش) ۔۔۔ یہ بزمِ مَے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی جو خود بڑھ کر اُٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے ۔۔۔ آہستہ برگِ گل بفشاں بر مزارِ ما بس نازک است شیشہ دل درکنارِما ۔۔۔ پی کے ہم تم جو چلے جھومتے میخانے سے جھک کے کچھ بات کہی شیشے نے پیمانے سے نیچی نظروں سے مری جان مجھے کیوں دیکھا لوگ کچھ اور ہی سمجھے ترے شرمانے سے ۔۔۔ دل کو خیال یار نے مخمور کر دیا ساغر کو رنگِ بادہ نے پُرنور کر دیا گستاخ دستیوں کا نہ تھا مجھ میں حوصلہ لیکن ہجوم شوق نے مجبور کر دیا (حسرت) ۔۔۔ اب تو تیری جفا سے یہ مانگے ہوں میں دعا ظالم خدا کرے کہ کہیں تو لگائے دل اور جس پہ تو فدا ہو وہ ظالم ہو اس قدر جو مطلقاً ترا بھی نہ خاطر میں لائے دل آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں تو ہائے گل پکار، میں چلاؤں ہائے دل ۔۔۔ تردامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں (سودا) ۔۔۔ باغباں کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی بھیجنی ہیں ایک کم سِن کے لیے (امیر مینائی) ۔۔۔ اس نزاکت میں سنے کب وہ کسی کی فریاد غنچہ چٹکے تو کہے سر میں دھمک ہوتی ہے |