میں اپنی چشمِ شوق کو الزام خاک دوں تیری نگاہِ شرم سے کیا کچھ عیاں نہیں ۔۔۔ ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا، ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکاء جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا ۔۔۔ کچھ زہر نہ تھی شرابِ انگور کیا چیز حرام ہو گئی(داغ) ۔۔۔ ہاتھ نکلے دونوں اپنے کام کے دل کو تھاما اُن کا دامن تھام کے داغ کے سب حرف لکھتے ہیں جدا ٹکڑے کر ڈالے ہمارے نام کے(داغ) ۔۔۔ نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی(اقبال) ۔۔۔ سودا قمارِ عشق میں خسرو سے کوہکن بازی اگرچہ پا نہ سکا، سر تو کھو سکا کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز اے روسیاہ! تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا (سودا) ۔۔۔ امیر اس بے وفا دنیا کی لذت پہ نہ تم جانا بڑی عیار ہے، مکار ہے ظاہر میں بھولی ہے (امیر مینائی) ۔۔۔ آنے والے کسی طوفان کو رونا رو کر ناخدا نے مجھے ساحل پہ ڈبونا چاہا (حفیظ) ۔۔۔ توبہ، توبہ، شیخ جی! توبہ کا پھر کس کو خیال جب وہ خود کہہ دے کہ پی، تھوڑی سی پی میرے لیے (حفیظ) ۔۔۔ تری جفائیں بھی سہتا رہوں، دعا بھی کروں تجھی سے رحم کی چلا کے التجا بھی کروں |