نیم بسمل اُس نے گر چھوڑا تو کچھ پروا نہیں پر یہ غم ہے اعتبارِ دستِ قاتل اُٹھ گیا ۔۔۔ شیفتہ وہ کہ جس نے ساری عمر دینداری و پارسائی کی آخرِ کار مَے پرست ہوا شان ہے تیری کبریائی کی(شیفتہ) ۔۔۔ اُٹھو صنم کدے والو تلاش لازم ہے ادھر ہی لوٹ پڑیں گے اگر خدا نہ ملا تمام زادِ سفر راستے میں لُٹ جاتا خدا کا فضل ہوا کوئی رہنما نہ ملا وہ گمراہی کی تمنا، وہ رہبروں کا ہجوم غرض یہ ہے کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا(حفیظ) ۔۔۔ مظلوم کی فریاد پہ طیش آتا ہے ان کو کہتے ہیں زبان کاٹ کے حال اپنا سنا اور(ناصر حسن پوری) ۔۔۔ تواناؤں کے بس میں ہے سرِ پائے حقارت سے کروڑوں ناتوانوں کی تمناؤں کو ٹھکرانا دبا دینا کسی مظلوم کی آہوں کو سینے میں کسی بیکس کو ساری عمر آنسو خوں کے رلوانا ہے جن کے دل میں آزادی کی دھن ان نوجوانوں کو وطن کے عشق کی پاداش میں سولی پہ لٹکانا بہا دینا کسی کی راکھ کو ستلج کی موجوں میں کسی کی لاش اٹک کے پار خاک و خوں میں تڑپانا ملوکیت پرستوں کے لیے سب کچھ یہ آساں ہے مگر دشوار ہے قانونِ فطرت کا بدل جانا زوال اس سلطنت کا ٹل نہیں سکتا ہے ٹالے سے خود اپنی ہی رعایا سے پڑا ہو جس کو ٹکرانا مکافاتِ عمل سے گروہ غافل ہیں تو بےشک ہوں ہمارا کام تھا نیک اور بَد کا اُن کو سمجھانا(مولانا ظفر علی خاں) ۔۔۔ گھر بھرا انگریز کا لندن میں دیکھ آیا ہے تو چل کے دہلی میں ہماری خانہ ویرانی بھی دیکھ(مولانا ظفر علی خاں) ۔۔۔ |